غداری
Poet: مرزا عبدالعلیم بیگ By: مرزا عبدالعلیم بیگ, Pakistanوہ شخص
میرے ہی لشکر سے غداری کر گیا
جس کے لیے
ہر جنگ لڑی
ہر تیر کھایا
ہر زخم سہا
میں نے سوچا تھا
کہ جیت کی آخری شام
اس کے نام کی جائے گی
تخت پر بیٹھے گا وہ
اور میں
بس ایک سپاہی کی طرح
مسکرا کر پیچھے ہٹ جاؤں گا
مگر وہ
چالاکی سے الگ ہوا
میرے ہی خیمے سے
میرے ہی خوابوں سے
نہ کوئی اشارہ
نہ الوداعی لفظ
بس ایک خنجر
میرے یقین کی پشت میں
میں حیران کھڑا تھا
خود کی بنائی سلطنت میں
جہاں تاج بھی تھا
تلوار بھی
میں نے جس کی خاطر
اپنی ذات کو بھلا دیا
وہی
میری پہچان مٹا گیا
اب ہر فتح شکست لگتی ہے
اور ہر خواب
اک سازش کا کمرہ
اور میں
ایک بےنام سپاہی
جو اپنی ہی صفوں میں تنہا ہو گیا
جو فتح کے دن بھی ہارا ہوا ہے
اور وہ
جس کی سلطنت کو میں نے خوابوں میں سینچا
میرے ہی ملبے پر
اپنا پرچم گاڑ گیا
اب نہ میں سپاہی ہوں
نہ سپہ سالار
نہ ہی بادشاہ
بس ایک خالی وجود
اب میں اپنی ہی سلطنت کے کھنڈرات میں
خود کو ڈھونڈتا ہوں
اک روز شاید
کوئی اور آئے گا
میری راکھ کو چھو کر
میرے خوابوں کی گواہی دے گا
اور تب وہ جان پائے گا
کہ غداری کیا ہوتی ہے
جب دشمن باہر نہیں
دل کے اندر پلتا ہو
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






