عمر کہتے ہیں جسے سانسوں کی اک زنجیر ہے
Poet: سید مجتبی داودی By: سید مجتبی داودی, Karachiعمر کہتے ہیں جسے سانسوں کی اک زنجیر ہے
 چشم بینا میں ہر اک لمحے نئی تصویر ہے
 
 زندگی انعام کی صورت میں اک تعزیر ہے
 جو کبھی دیکھا نہ تھا اس خواب کی تعبیر ہے
 
 جو پَس پردہ ہے اس کو چاہے جو کہہ لیجئے
 پیش جو آئے وہی انسان کی تقدیر ہے
 
 کوئی منظر یوں نہیں جس کا کہ پس منظر نہیں
 ذات کا اظہار گویا ذات کی تشہیر ہے
 
 رات خائف ہے کہ تحلیل سحر ہوجائے گی
 صبح کو یہ فکر لاحق شام دامن گیر ہے
 
  
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






