ظاہر کي آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئي
Poet: علامہ اقبال By: Anila, Karachi
ظاہر کي آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئي
ہو ديکھنا تو ديدہء دل وا کرے کوئي
منصور کو ہوا لب گويا پيام موت
اب کيا کسي کے عشق کا دعوي کرے کوئي
ہو ديد کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے ديکھنا يہي کہ نہ ديکھا کرے کوئي
ميں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
ديکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئي
عذر آفرين جرم محبت ہے حسن دوست
محشر ميں عذر تازہ نہ پيدا کرے کوئي
چھپتي نہيں ہے يہ نگہ شوق ہم نشيں!
پھر اور کس طرح انھيں ديکھا کر ے کوئي
اڑ بيٹھے کيا سمجھ کے بھلا طور پر کليم
طاقت ہو ديد کي تو تقاضا کرے کوئي
نظارے کو يہ جنبش مژگاں بھي بار ہے
نرگس کي آنکھ سے تجھے ديکھا کرے کوئي
کھل جائيں ، کيا مزے ہيں تمنائے شوق ميں
دو چار دن جو ميري تمنا کرے کوئي
More Allama Iqbal Poetry






