شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
Poet: پروین شاکر By: Faizan, Sialkot
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے
اس سمندر کا کنارہ اور ہے
موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے
ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا
تیر سینے میں اتارا اور ہے
متن میں تو جرم ثابت ہے مگر
حاشیہ سارے کا سارا اور ہے
ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر
آسماں کا ہی اشارہ اور ہے
دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی
تیز بارش کا سہارا اور ہے
ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے
سکھ کے موسم انگلیوں پر گن لیے
فصل غم کا گوشوارہ اور ہے
دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری
پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے
اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں
آسماں پر ایک تارہ اور ہے
حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے
آج سے رستہ ہمارا اور ہے
More Parveen Shakir Poetry






