ستارے جھومتے ہیں کہکشاں میں
کہیں کیوں شعر بازاری زباں میں
بڑھائی ہیں حدیں بھی سلطنت کی
کسی نے کھوئی شاہی اک بیاں میں
عبارت میں ہو جیسے کوئی نقطہ
رہا کردار اتنا داستاں میں
تسلسل برقرار آفت گری کا
پڑا جیسے شگاف اک آسماں میں
نہیں دستار تو سر کیا کریں گے
شمار اپنا سمجھ لو رفتگاں میں
عصا کا معجزہ میراث میں ہے
بدل دی آگ بھی تھی گلستاں میں
حسینہ لے کے اتری ناز و عشوے
شمار اس کا سبا کے شہ رخاں میں
اسے مٹی کے بھاؤ بھی نہ جانوں
جو شامل ہے نگر کے زر گراں میں
عجب ہی شیوۀِ وعدہ خلافی
رشیدؔ اب آ گیا ہے دلبراں میں