یادوں کے جھمگٹوں سے گزرتا ہوا بھی دیکھ
دل کو پل صراط پہ چلتا ہوا بھی دیکھ
دیکھی ہیں ابھی تو نے اناؤں کی بازیاں
راہوں میں مجھے اپنی بکھرتا ہوا بھی دیکھ
ہونٹوں پہ ایک ایک دعا چیخ رہی ہے
آنکھوں کے ساغروں کو چھلکتا ہوا بھی دیکھ
اے جان تیری شام بہت خوب ہے لیکن
سورج کو کسی روز نکلتا ہوا بھی دیکھ
کہتا ہے تیرے حسن سے ہر روز آئینہ
سینے میں کسی شے کو دھڑکتا ہوا بھی دیکھ
ہر زندگی تھی رقص میں جسکی اٹھان پر
آسوں کے اس شباب کو ڈھلتا ہوا بھی دیکھ
دیکھے ہیں بہت تو نے تماشے زوال کے
گر گر کےہمیں آج سبھلتا ہوا بھی دیکھ
ناؤ کی خستگی پہ گلہ میں نے سنا ہے
طوفاں کو میرے شوق سے ٹلتا ہوا بھی دیکھ
ہاتھوں میں دے کے ہاتھ چلو سوئے بہاراں
سینوں پہ مونگ شہر کو دلتا ہوا بھی دیکھ
کھوجو نہ فقط حسن تخیل کی ندرتیں
شعروں میں اپنا عکس ابھرتا ہوا بھی دیکھ