دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
Poet: فانی بدایونی By: Zaid, Karachiدنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے 
 موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے 
 
 آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں 
 جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے 
 
 خود جو نہ ہونے کا ہو عدم کیا اسے ہونا کہتے ہیں 
 نیست نہ ہو تو ہست نہیں یہ ہستی کیا ہستی ہے 
 
 عجز گناہ کے دم تک ہیں عصمت کامل کے جلوے 
 پستی ہے تو بلندی ہے راز بلندی پستی ہے 
 
 جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں 
 آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے 
 
 وحشت دل سے پھرنا ہے اپنے خدا سے پھر جانا 
 دیوانے یہ ہوش نہیں یہ تو ہوش پرستی ہے 
 
 جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا 
 جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے 
 
 آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے 
 دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے 
 
 دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم 
 بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے 
 
 فانیؔ جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا 
 ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے






