آنے کا کیا وعدہ دوبارہ نہیں آیا
انکو خیال کچھ بھی ہمارا نہیں آیا
کچھ اور سوچنے کی مہلت ملی نہیں
قاصد کے ہاتھ کوئی اشارہ نہیں آیا
ماضی کی وہی یادیں سینے سے لگی ہیں
گردش میں پھر سے میرا ستارہ نہیں آیا
چند ساعتوں کی بات تھی لوگ روئے چھپ ہوئے
پھر ذکر کسی لب پہ ہمارا نہیں آیا