جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
Poet: احمد فراز By: Hassan, Peshawar
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو 
 اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو 
 
 یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے 
 یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایا ہے کہ تم ہو 
 
 اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں 
 میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو 
 
 دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری 
 دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو 
 
 یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں 
 ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو 
 
 ہر بزم میں موضوع سخن دل زدگاں کا 
 اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو 
 
 اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں 
 اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو 
 
 وہ وقت نہ آئے کہ دل زار بھی سوچے 
 اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو 
 
 آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل 
 یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو 
 
 اے جان فرازؔ اتنی بھی توفیق کسے تھی 
 ہم کو غم ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو






