جزبات لے اڑا تو کوئی مال لے گیا
باقی جو بچ گیا وہ گیا سال لے گیا
میرے وجود میں بھی تو آیا تھا زلزلہ
میری متاع ِ زیست بھی بھونچال لے گیا
آندھی تھمی تو کوئی اسیرِ قفس نہ تھا
پنچھی چمن بھی اپنے پروبال لے گیا
پابند ہیں زباں کے وگر نہ خدا گواہ
توڑا کسی نے قفل کوئی جال لے گیا
بے چارگی کے ڈر سے وہ اک آئینہ صفت
مجھ سے پھر اتو میرے خط و خال لے گیا
میرا دماغ عرش پہنچا ادھر مجھے
میرا ضمیر کھنچ کے پاتال لے گیا
وشمہ درحضور شفاعت کے واسطے
میں ساتھ اپنا نامہ اعمال لے گیا