جانِ من، جانِ جاں ہو ساتھ رہو
Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوالجانِ من، جانِ جاں ہو ساتھ رہو
رونقِ آشیاں ہو ساتھ رہو
کفر و ایمان سے کسے ہے غرض
تم یقین و گماں ہو ساتھ رہو
بن تمہارے کہاں کہاں بھٹکوں
تم مرا آشیاں ہو ساتھ رہو
جس پہ ہر دم ہے خم جبیں میری
تم وہ سنگ، آستاں ہو ساتھ رہو
جسے قاصر ہے عرش اُٹھانے سے
تم وہ بارِ گراں ہو ساتھ رہو
جس کی ہر باب کا ہوں میں کردار
تم وہی داستاں ہو ساتھ رہو
ختم ہے مجھ پہ بندگی اور تم
میری معبودِ جاں ہو ساتھ رہو
ایک عالم پہ تیرا سایہ ہے
نیل گوں آسماں ہو ساتھ رہوں
جس کی ہیبت رہی قلندروں پر
تم وہ پیرِ مغاں ہو ساتھ رہو
ہیں مری تاک میں عدو کب سے
تم پناہِ اماں ہو ساتھ رہو
تمھیں ہر اِک نَفَس گُزارا ہے
مجھ پہ طاری سماں ہو ساتھ رہو
میں بھی کیا ہوں بس ایک دم بھر کا
اور تم جاوداں ہو ساتھ رہو
حالِ دل کیا ہو پھر بیاں لب سے
میرے دِل کی زباں ہو ساتھ رہو
دستِ جُود و کرم جہاں محتاج
تُم وہاں مہرباں ہو ساتھ رہو
چشم سر پر مری نہاں ہو تُم
چشمِ دِل پر عیاں ہو ساتھ رہو
لشکرِ غم سے رن میں لڑنے کو
میرے تیر و کماں ہو ساتھ رہو
آسماں تک پہاڑ غم کے لیے
تُم تو آتش فشاں ہو ساتھ رہو
تم کہیں بھی نہیں کہیں بھی نہیں
ہاں مرے درمیاں ہو ساتھ رہو
مجھے جلنے سے پل کی فُرصت نئیں
آگ ہو تم دُھواں ہو ساتھ رہو
میری سانسیں تمھیں سے چلتی ہیں
نبضِ جاں میں رواں ہو ساتھ رہو
مجھ سی بنجز زمیں پہ نور کی تم
اِک برستی براں ہو ساتھ رہو
تیرے اندر کہیں تپاں ہوں میں
میرے اندر تپاں ہو ساتھ رہو
تمھیں لکھ کر قلم ہی توڑ دیا
آخری داستاں ہو ساتھ رہو
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






