جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے

Poet: سید مجتبی داودی By: سید مجتبی داودی, Karachi

جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے
موتی کی طرح برگ پہ شبنم تو نکھر جائے

لمحوں کے تسلسل سے ہے حرکت کا تسلسل
لمحے جو ٹھہر جائیں تو حرکت بھی ٹھہر جائے

اس طفل کی مانند ہوئی جاتی ہے ہستی
جو طفل کہ ہر خواب سے ہر بات سے ڈر جائے

بڑھتی ہے تھکن اور بھی احساس سفر سے
آرام سفر آئے جب احساس سفر جائے

یوں دیر تلک ساحل دریا پہ نہ بیٹھے
شاعر سے کہو شام ہوئی جاتی ہے گھر جائے
 

Rate it:
Views: 287
17 Nov, 2022
More Life Poetry