تو جدھر تھا ادھر دیکھتے رہ گئے
چاند تارے سحر دیکھتے رہ گئے
پانے والوں نے پا لی حسیں منزلیں
آپ زاد سفر دیکھتے رہ گئے
وہ ہوا کے بگولوں کا اک بھیس تھا
پھول اٹھتے ابر دیکھتے رہ گئے
سو گئے ہم گلیم فلک اوڑھ کر
نازنیں اپنا گھر دیکھتے رہ گئے
حسن کردار کے ان گنت زاویئے
تیری جھکتی نظر دیکھتے رہ گئے
آج دست مسیحا سے پا کر شفا
لفظ اپنا اثر دیکھتے رہ گئے
وقت نے تاج پاؤں تلے رکھ لیا
بادشاہ اپنے سر دیکھتے رہ گئے
میرے اظہار کا مرحلہ کٹ گیا
آپ زیر و زبر دیکھتے رہ گئے
ذوق پرواز سے ناشناسا رہے
وہ پرندے جو پر دیکھتے رہ گئے