تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ ( رومانوی گیت)
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid sheikh, Lahore,Pakistanتو راحت جاں بن کے مرے پاس جو آیا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
خاموش نگا ہوں سے ملیں مجھ کو صدائیں
کچھ سادہ مگر شوخ بھی ہیں تیری ادائیں
میں جب ہوا غمگین مجھے آ کے ہنسایا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
تو راحت جاں بن کے مرے پاس جو آیا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
زلفوں کی یہ کالی سی گھٹا میرے لیے ہے
ان گالوں پہ یہ رنگ حیا میرے لیے ہے
اے جان وفا پیار میں کیا کیا نہیں پایا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
تو راحت جاں بن کے مرے پاس جو آیا
تپتے ہوئے صحرا میں ملا ابر کا سایہ
گیت کا منظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سردیوں کی چمکیلی دھوپ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت پارک جس میں فواروں
سے پانی اچھل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب اپنی محبوبہ (جو اس سے شدید محبت کرتی ہے اور اسے کبھی
اداس نہیں دیکھ سکتی) کو یہ محبت بھرا گیت سنا رہا ہے جو گیت سنتے ہوئے اک ادائے دلربائی لیے
مسکرا بھی رہی ہے اور کچھ شرما بھی رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






