تعلق اس طرح تو ڑا نہی کرتے
Poet: By: Arshad Mehmood Arshi, Haripur Pakistanتعلق اس طرح توڑانہی کرتے
کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہو جائے
حیات اک زہر میں ڈوبی تلوار ہو جائے
محبت اس طرح چھوڑا نہی نہی کرتے
خفا ہونے کی رسمیں ہیں
بگڑنے کے طریقے ہیں
راج و رسم، ترک و دوستی پر سو کتابیں ہیں
رواداری کا ہرگز راستہ چھوڑا نہیں کرتے
تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے
کبھی بلبل گلوں کی خاموشی سے روٹھ جاتی ہے
پر اگلے سال سب کچھ بھول کر پھر لوٹ آتی ہے
سبھی بھنوروں کو گل ہرجائی کہتے ہیں
مگر تھوڑی سی ضد کے بعد بندھن کھول دیتے ہیں
کبھی پودوں سے پانی دور ہو جائے
تو ہمسائیہ درخوں کی جڑوں کے ساتھ پیغامات جاتے ہیں
محبت میں سبھی ایک دوسرے کو آزماتے ہیں
مگر ایسا نہیں کرتے
کہ امید کا امکان مٹ جائے
کہاں تک کھینچتی ہے ڈور
یہ اندازہ رکھتے ہیں
ہمیشہ چاردیواری میں دروازہ رکھتے ہیں
جدائی مستقل ہو جائے تو یہ زندگی زندان ہو جائے
اگر خوشبو ہواؤں سے مراسم منقطع کردے
تو خود میں ڈوب کر بےجان ہو جائے
سنو
جینے سے منہ موڑا نہیں کرتے
محبت اس طرح چھوڑا نہیں کرتے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے







