تتلی قفس میں قید صبا ڈھونڈھتی رہی
میں شہر ننگ میں بھی ردا ڈھونڈھتی رہی
وہ تتلیوں میں مست بہت مطمئن سا تھا
جس کو چمن میں میری صدا ڈھونڈھتی رہی
رت کی طرح مزاج بدل کر چلا گیا
وہ بے وفا تھا اس میں وفا ڈھونڈھتی رہی
تخت منافقت پہ وہی حکمران تھا
بہر خلوص جس کو سدا ڈھونڈھتی رہی
جوش جنوں کے ہاتھ جسے دان کر چکی
پھر میں ضرورتاً وہ انا ڈھونڈھتی رہی
دل پر لگے جو زخم کہاں مندمل ہوئے
میں شہر شہر پھرتی دوا ڈھونڈھتی رہی
بستی میں ایک بھی نہ وفادار مل سکا
میں در بدر بھٹکتی وفا ڈھونڈھتی رہی
سیل بلا بھنور میں جہاں چھوڑ کر گیا
میں ناخدا کے ساتھ خدا ڈھونڈھتی رہی
دیوار دل سے میری چرا کے وہ لے گیا
جگ مگ سی روشنی وہ دیا ڈھونڈھتی رہی
میری ہتھیلیوں پہ رچے زخم زخم رنگ
بانوؔ میں ان میں بوئے حنا ڈھونڈھتی رہی