بَرگِ آوارہ ہوں، سینے سے لگا لے مجھ کو
میری بِکھری ہوئی ہَستی میں سجا لے مجھ کو۔
یہ زمانہ مجھے ہر موڑ پہ ٹھوکر دے گا،
اے مُحبت! تُو کہیں جا کے بَچا لے مجھ کو۔
ہر صَدا بَن کے صَداکار بھَٹکتا ہوں میں،
کبھی خاموش مُحبت سے دِکھا لے مجھ کو۔
کبھی مَحسوس کیا تُو نے مِرے دَرد کی دھُن؟
آکر دَرد کے سُر میں کبھی گا لے مجھ کو۔
کیا پَتا اور کہاں جاؤں میں دُنیا سے اَلگ،
کوئی رَستہ نہ ملے تو تُو بُلا لے مجھ کو۔
میرے دامن میں فقط زَخم ہی زادِ سفر،
تُو اگر چاہے تو ہنستے ہوۓ چھُپا لے مجھ کو۔
مجھ کو مظہرؔ کبھی خوشبو سا بِکھر جانا ہے،
پھُول کی طرح تُو ہاتھوں میں تَھما لے مجھ کو۔