اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے

Poet: آلوک شریواستو By: مصدق رفیق, Karachi

اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے
طواف کرتا ہوا موسم بہار چلے

لگا کے وقت کو ٹھوکر جو خاکسار چلے
یقیں کے قافلے ہم راہ بے شمار چلے

نوازنا ہے تو پھر اس طرح نواز مجھے
کہ میرے بعد مرا ذکر بار بار چلے

یہ جسم کیا ہے کوئی پیرہن ادھار کا ہے
یہیں سنبھال کے پہنا یہیں اتار چلے

یہ جگنوؤں سے بھرا آسماں جہاں تک ہے
وہاں تلک تری نظروں کا اقتدار چلے

یہی تو ایک تمنا ہے اس مسافر کی
جو تم نہیں تو سفر میں تمہارا پیار چلے
 

Rate it:
Views: 163
14 May, 2025