اک ماں کا سوال
Poet: samina fayyaz By: samina fayyaz, karachi
کیا کہوں اسے کہ دل ہو میرا بھی مطمعن سا
میں اسے جواب کیا دوں ؟سمجھاوں کیسے؟
میری آنکھ ہو نہ جھکی ہوئی! نہ گروں نگاہ میں اپنی
میں اپنے لہجے کی لرزش میں جھوٹ چھپاوں کیسے؟
سچ کا دامن نہ چھوڑنا اور جھوٹ کبھی نہ بولنا
اسی یقین سے کروں میں اسے تلقین کیسے؟
وہ جو ہر آہٹ پہ ہے حیران پریشان و خوف زدہ
سہم کر پوچھتا ہے! ماں یہ آواز آئی ہے کیسے؟
اس کے ننھے سے معصوم زہن کو بہلاوں کیسے؟
اس کے بے قابو دھڑکتے دل کو سنبھالوں کیسے؟
کیا کہوں گولی کوئی کسی کو زیر کر گئی کیسے؟
پل بھر میں ہنستی بستی دنیا کسی کی اجڑ گئی کیسے؟
کسی کا لخت جگر کسی کا پیارا سہارا جدا ہوا کیسے؟
شوخیاں سسکیوں آہوں میں بدل گیں کیسے؟
خون کے پیاسے وحشی درندے گھومتے ہیں نگر نگر
بکھرے اعضائ کو ہم سمیٹتے ہیں کیوں اور کیسے؟
جان سکتا ہے وہی دل ہو جسکا ماں کے دل جیسا
ہر لمحہ زندگی کا گزرتا ہے دعاوں میں کیسے؟
سزا میں اتارے گئے ہیں آدم جس زمیں پر
لڑتی ہے نسل آدم اس زرو زمیں کیلے کیسے؟
جسے انعام میں ملا ہو لقب اشرفلمخلوقات کا
ہوگئے وہ انساں حیوان سے بھی بدتر کیسے؟
حقیقت دنیا کی جان کر دہشت و انتشار کی
ہونگے مرتب اثرات اسپر نہ جانے کیسے؟
جہاں بدلتے ہوں چہرے فقط مال و زر کے لیے ثمینہ
پھر بھلا چلے گا وہاں کو ئی قاعدہ و قانون کیسے؟
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں






