اپنےدل کا افسانہ لکھتا ہوں
Poet: اسد جھنڈیر By: اسد جھنڈیر, MPK اپنےدل کا افسانہ لکھتا ہوں
آپ بیتی کا زمانہ لکھتا ہوں
دل مبتلائے غمے روزگار اور۔
کسی پر اسکا آ جانا لکھتا ہوں۔
مر مٹا تھا کسی کے پیچھے۔
طے تھا جان سے جانا لکھتا ہوں۔
آج کل کی یہ بات نہیں ظالم۔
روگ ھے بہت پرانہ لکھتا ہوں۔
جب دن تھے میری جوانی کے۔
پہلے پہل کا عاشقانہ لکھتا ہوں۔
ایک صورت جو بلا غضب کی تھی۔
کیا ہی اسکاتھا مسکرانہ لکھتا ہوں۔
اسکی آنکھیں بلوری آسمان جیسے۔
دند موتی کا ہر دانہ لکھتا ہوں۔
اسکو محبت کا جنون تھا کوئی۔
یعنی ہمسے تھا یارانہ لکھتا ہوں۔
یہ یکطرفہ بھی محبت نہیں تھی۔
اپنا بھی دل تھا دیوانہ لکھتا ہوں۔
رات دن پیار ہی پیار تھا باہم۔
گویا ہر دن تھا سہانہ لکھتا ہوں۔
کوئی پل خالی نہ تھا محبت سے۔
کیا ہی تھا لطف فرمانہ لکھتا ہوں۔
جب دو جسم ایک جان تھے ہم۔
باہم پیار تھا دوستانا لکھتا ہوں۔
پھر اچانک وقت سا یار بدل گیا۔
ٹوٹ گیا برسوں کا یارانہ لکھتا ہوں
اسکا مطلب کا پیار تھا نہیں معلوم۔
یا فریب تھا کوئی کہا نا لکھتا ہوں۔
جھوٹے تھے سب وعدے وفا اسکے۔
جھوٹا تھا پیار کا فسانہ لکھتا ہوں۔
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






