اپنے سے بھی جدا ہو گئے ہیں
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreاپنے سے بھی جدا ہو گئے ہیں
تیری خاطر فنا ہو گئے ہیں
وہ جو تھے میرے کچھ شوخ جذبے
اُس کے سر کی رِدا ہو گئے ہیں
وہ جو وعدے تھے اُس کی وفا کے
وہ بھی نذرِ حیا ہو گئے ہیں
جب سے ہم کو سزا ہو گئی ہے
تب سے وہ پارسا ہو گئے ہیں
جب سے اِظہار ہم نے کیا ہے
ظلم سارے روا ہو گئے ہیں
جن پہ تکیہ رہا تھا ہمارا
سب وہ پتے ہوا ہو گئے ہیں
زخم کوئی بھی بھرتا نہیں ہے
درد بھی لادوا ہو گئے ہیں
بجھ گئے ہیں چراغِ محبّت
چاند تارے خفا ہو گئے ہیں
ہجر کے گھپ اندھیرےمیں جاناں
زخمِ دل ہی دیا ہو گئے ہیں
موتی بن کر گرے تھے جو آنسو
اُس کے بندِ قبا ہو گئے ہیں
وہ جو قطرے تھے میرے لہو کے
اُس کا رنگِ حنا ہو گئے ہیں
ہم تو ویسے ہی ہیں اب بھی یارو
وہ مگر کیا سے کیا ہو گئے ہیں
جن کو سر پہ بٹھایا تھا ہم نے
دوستو وہ خدا ہو گئے ہیں
اُن کی آنکھوں سے سب کچھ عیاں ہے
سارے مطلب ادا ہو گئے ہیں
اُس کے آنےکا جب سے سنا ہے
دل میں محشر بپا ہو گئے ہیں
قبر پر میری آ کے وہ بولے
ترے نالے رسا ہو گئے ہیں
ہاتھ اُٹھے نہیں تھے جو اب تک
دیکھو دستِ دعا ہو گئے ہیں
شاعری اور کیا ہے عزیزو
دل کے جذبے صدا ہو گئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلع محترمہ بہن عظمٰی کے شاعرانہ خیال سے لیا گیا ہےوہ اگر اجازت دیں گی تو ٹھیک ورنہ اسے بدل دوں گا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






