اپنا خاکہ لگتا ہوں
Poet: جون ایلیا By: Anila, washington
اپنا خاکہ لگتا ہوں 
 ایک تماشا لگتا ہوں 
 
 آئینوں کو زنگ لگا 
 اب میں کیسا لگتا ہوں 
 
 اب میں کوئی شخص نہیں 
 اس کا سایا لگتا ہوں 
 
 سارے رشتے تشنہ ہیں 
 کیا میں دریا لگتا ہوں 
 
 اس سے گلے مل کر خود کو 
 تنہا تنہا لگتا ہوں 
 
 خود کو میں سب آنکھوں میں 
 دھندلا دھندلا لگتا ہوں 
 
 میں ہر لمحہ اس گھر سے 
 جانے والا لگتا ہوں 
 
 کیا ہوئے وہ سب لوگ کہ میں 
 سونا سونا لگتا ہوں 
 
 مصلحت اس میں کیا ہے میری 
 ٹوٹا پھوٹا لگتا ہوں 
 
 کیا تم کو اس حال میں بھی 
 میں دنیا کا لگتا ہوں 
 
 کب کا روگی ہوں ویسے 
 شہر مسیحا لگتا ہوں 
 
 میرا تالو تر کر دو 
 سچ مچ پیاسا لگتا ہوں 
 
 مجھ سے کما لو کچھ پیسے 
 زندہ مردہ لگتا ہوں 
 
 میں نے سہے ہیں مکر اپنے 
 اب بیچارہ لگتا ہوں
More Jaun Elia Poetry






