اپنا تو چاہتوں میں یہی اک اصول ہے
تیرا بھلا برا ہمیں سب کچھ قبول ہے
یہ عمر بھر کا جاگنا بیکار ہی نہ جائے
تو ناں ملا تو ساری ریاضت فضول ہے
خود ہی کہا تھا تو نے مری جان چھوڑ دے
اب چھوڑ دی تو کیوں ترا چہرہ ملول ہے
اے ماں یہ میری شہرتیں میری یہ عزتیں
کچھ بھی نہیں ہے بس ترے قدموں کی دھول ہے
آئی جو تیری یاد تو آنکھیں برس پڑیں
اس وقت تیرے درد کا دل پر نزول ہے
اک دوسرے کے واسطے دونوں بنے وصیؔ
گلدان میرا دل ہے تری یاد پھول ہے