وہ وقت رخصت کسی کا کہنا
تمہیں جدائی کے موسموں کی قسم ہے
اپنا خیال رکھنا
میری محبت کی لاج رکھنا
ہماری خاطر جو بہہ رہے ہیں
ان آنسوؤں کو سنبھال رکھنا
رہِ وفا کو اٹل سمجھنا
نہ دل میں کوئی سوال رکھنا
کٹے گی آخر شب جدائی
امید روز وصال رکھنا!
ہزار موسم گزر گئے ہیں!
جدائی دیوار بن گئی ہے
زمانہ سارا بدل گیا ہے
پرانی الفت کی یادگاروں پہ
وقت کی گرد جم گئی ہے
گزرتے وقتوں نے جیسے مجھ کو
تھکا مسافر بنا دیا ہے
مگر یہ سچ ہے
سفر جاری ہے!
سفر کا زاد سفر یہی ہے
وہ وقت رخصت کسی کا کہنا
کٹے گی آخر شب جدائی
امید روز وصال رکھنا