اس منظر سادہ میں کئی جال بندھے تھے
Poet: احمد فراز By: Haider Ali, Karachi
اس منظر سادہ میں کئی جال بندھے تھے 
 جب اس کا گریبان کھلا بال بندھے تھے 
 
 اے زود فراموش کہاں تو ہے کہ تجھ سے 
 میرے تو شب و روز مہ و سال بندھے تھے 
 
 وہ رشک غزالاں تھا مگر دام میں اس کے 
 ہم جیسے کئی صید زبوں حال بندھے تھے 
 
 دیکھے کوئی ناصح کی جو حالت ہے کہ ہم تو 
 اس بت کی محبت میں بہرحال بندھے تھے 
 
 صیاد کو پھر بھی مری پرواز کا ڈر تھا 
 میں گرچہ قفس میں تھا پر و بال بندھے تھے 
 
 یوں دل تہہ و بالا کبھی ہوتے نہیں دیکھے 
 اک شخص کے پاؤں سے تو بھونچال بندھے تھے 
 
 وقت آیا تو میں مقتل جاں میں تھا اکیلا 
 یاروں کی گرہ میں فقط اقوال بندھے تھے
More Ahmed Faraz Poetry






