اب جو لوٹے ہو اتنے سالوں میں
دھوپ اتری ہوئی ہے بالوں میں
تم مری آنکھ کے سمندر میں
تم مری روح کے اجالوں میں
پھول ہی پھول کھل اٹھے مجھ میں
کون آیا مرے خیالوں میں
میں نے جی بھر کے تجھ کو دیکھ لیا
تجھ کو الجھا کے کچھ سوالوں میں
میری خوشیوں کی کائنات بھی تو
تو ہی دکھ درد کے حوالوں میں
جب ترا دوستوں میں ذکر آئے
ٹیس اٹھتی ہے دل کے چھالوں میں
تم سے آباد ہے یہ تنہائی
تم ہی روشن ہو گھر کے جالوں میں
سانولی شام کی طرح ہے وہ
وہ نہ گوروں میں ہے نہ کالوں میں
کیا اسے یاد آ رہا ہوں وصیؔ
رنگ ابھرے ہیں اس کے گالوں میں