اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
Poet: پروین شاکر By: Ubaid, Sialkot
اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے
اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں
ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے
ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے
بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں
پتا منزل کا میر کارواں سے
توجہ برق کی حاصل رہی ہے
سو ہے آزاد فکر آشیاں سے
ہوا کو رازداں ہم نے بنایا
اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے
ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت
مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے
فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے
مگر فرصت نہ تھی کار جہاں سے
وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی
بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے
کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید
زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے
میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی
اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے
جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں
انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے
جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں
انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے






