Add Poetry

آزادی ١٤ اگست ٢٠١٥=میں ہوں پاکستانی

Poet: Javed Iqbal Cheema By: Javed Iqbal Cheema, Italia

غم یاراں میں بے موت مارا گیا ہوں
غداروں کے ہاتھوں خون میں نہلایا گیا ہوں

نہ ڈپلومیسی میری نہ خارجہ پالیسی میری
اسی لئے دنیا میں تنہا لہرایا گیا ہوں

ہر روز ہوتی ہے دہشت گردی میرے اندر
دہشت گرد پھر بھی میں کہلوایا گیا ہوں

کس کے مفاد کی خاطر آگ میں کودا
چند بے سود ٹکوں سے بہلایا گیا ہوں

دست و گریبان ہیں حاکم میرے قبضے کے لئے
مہنگائی بیروزگاری کی سولی پے لٹکایا گیا ہوں

کبھی سیکورٹی رسک پر تماشا بنایا گیا ہوں
کبھی القائدہ اور طالبان سے ڈرایا گیا ہوں

رام رام کے سانپ سے بھی ڈسوایا گیا ہوں
نشہ ایسا کہ امریکی جام سے بھی بہکایا گیا ہوں

میں ہمیشہ اسلام کے نام پے للکارا گیا ہوں
افسوس کہ فرقہ پرستی کی قبر میں اتارا گیا ہوں

کالا باغ ڈیم تو میں بنا کے دکھا نہیں سکا
سیاسی داؤ پیچ کی منافقت میں الجھایا گیا ہوں

ہر ١٤ اگست کو سنتا ہے نام آزادی جاوید
بن عمل نعروں تقریروں سے بہلایا گیا ہوں

Rate it:
Views: 474
10 Aug, 2015
Related Tags on Occassional / Events Poetry
Load More Tags
More Occassional / Events Poetry
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
 
امید خواجہ
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets