Na Gubar Mein Na Gulab Mein
Poet: Ada Jafri By: Shahid Mansoor, karachiNa Gubar Mein Na Gulab Mein Mujhe Dekhana
Mere Dard Ke Aab-O-Tab Mein Mujhe Dekhana
Kisi Waqt Sham Malal Mein Mujhe Sochana
Kabhi Apne Dil Ke Kitab Mein Mujhe Dekhana
Kisi Dhun Mein Tum Bhi Jo Bastiyon Ko Tyag Do
Isi Rah-E-Khanakharab Mein Mujhe Dekhana
Kisi Raat Mah-O-Najum Se Mujhe Puchana
Kabhi Apni Chashm Purab Mein Mujhe Dekhana
Isi Dil Se Ho Kar Guzar Gaye Kai Karavan
Ke Hijraton Ke Zab Mein Mujhe Dekhana
Main Na Mil Sakun Bhi To Kya Hua Ke Fasana Hun
Nai Dastan Naye Bab Mein Mujhe Dekhana
Mere Khar Khar Saval Mein Mujhe Dhundhana
Mere Geet Mein Mere Khwab Mein Mujhe Dekhana
Mere Aansuon Ne Bujhai Thi Meri Tashnagi
Isi Bargzida Sahab Mein Mujhe Dekhana
Wohi Ik Lamha Did Tha Ke Ruka Raha
Mere Roz-O-Shab Ke Hisab Mein Mujhe Dekhana
Jo Tadap Tujhe Kisi Aaine Mein Na Mil Sake
To Phir Aaine Ke Javab Mein Mujhe Dekhana
ہر قدم پر ہے مرے سامنے دیوار جدا
کنجِ مژگاں سے ستاروں کو رہائی بھی نہیں
اور اُجالوں کو بکھر جانے پہ اصرار جدا
اب کے موسم سبھی کھیتوں میں شرربوئے گئے
اور ہوائیں ملیں شعلوں کی طرفدار جُدا
کوئی پہچان کسی خواب کی رہنے دیتے
آئنوں سے ہوتے کیوں آئینہ بردار جدا
گرنے والوں کو بہانوں کی ضرورت ہی نہ تھی
اور یہاں عذر بھی ملتا رہا ہر بار جدا
میری دنیا میں مجھے تو بھی تو آکر دیکھے
خوف کا بوجھ الگ درد کا بازار جدا
خواب کیا دیکھتی ہو خود ہی کسی خواب سی تھی
رنگ آنسو کا جدا، رنگ گل و خار جدا
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
راہ میں سنگ وفا تھا شاید
اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کھلا تھا شاید
جس کی باتوں کے فسانے لکھے
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید
تجھ کو بھولے تو دعا تک بھولے
اور وہی وقت دعا تھا شاید
خون دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید
دل کا جو رنگ ہے یہ رنگ اداؔ
پہلے آنکھوں میں رچا تھا شاید
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا
جو دعا کو ہاتھ اٹھائے بھی تو مراد یاد نہ آ سکی
کسی کارواں کا جو ذکر تھا وہ پس غبار کہاں رہا
یہ طلوع روز ملال ہے سو گلہ بھی کس سے کریں گے ہم
کوئی دل ربا کوئی دل شکن کوئی دل فگار کہاں رہا
کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب
ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا
ہمیں کو بہ کو جو لیے پھری کسی نقش پا کی تلاش تھی
کوئی آفتاب تھا ضو فگن سر رہ گزار کہاں رہا
مگر ایک دھن تو لگی رہی نہ یہ دل دکھا نہ گلہ ہوا
کہ نگہ کو رنگ بہار پر کوئی اختیار کہاں رہا
سر دشت ہی رہا تشنہ لب جسے زندگی کی تلاش تھی
جسے زندگی کی تلاش تھی لب جوئبار کہاں رہا
جینے کی آرزو تھی مگر حوصلہ نہ تھا
آگے حریم غم سے کوئی راستہ نہ تھا
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا
دامان چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا
ورنہ نگاہ و دل میں کوئی فاصلہ نہ تھا
کچھ لوگ شرمسار خدا جانے کیوں ہوئے
ان سے تو روح عصر ہمیں کچھ گلہ نہ تھا
جلتے رہے خیال برستی رہی گھٹا
ہاں ناز آگہی تجھے کیا کچھ روا نہ تھا
سنسان دوپہر ہے بڑا جی اداس ہے
کہنے کو ساتھ ساتھ ہمارے زمانہ تھا
ہر آرزو کا نام نہیں آبروئے جاں
ہر تشنہ لب جمال رخ کربلا نہ تھا
آندھی میں برگ گل کی زباں سے اداؔ ہوا
وہ راز جو کسی سے ابھی تک کہا نہ تھا
دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا
تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں دیکھیں
محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہو جانا
ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی
ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دل دار ہو جانا
اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا
ابھی کچھ ان کہے الفاظ بھی ہیں کنج مژگاں میں
اگر تم اس طرف آؤ صبا رفتار ہو جانا
ہوا تو ہم سفر ٹھہری سمجھ میں کس طرح آئے
ہواؤں کا ہماری راہ میں دیوار ہو جانا
ابھی تو سلسلہ اپنا زمیں سے آسماں تک تھا
ابھی دیکھا تھا راتوں کا سحر آثار ہو جانا
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا







