Mirza Ghalib Sad Poetry
Mirza Ghalib Sad Poetry is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Mirza Ghalib Sad Poetry that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Mirza Ghalib Sad Poetry compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
قاطع اعمار ہے اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
طاقت بیداد انتظار نہیں ہے
دیتے ہیں جنت حیات دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے
گریہ نکالے ہے تیری بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر
خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے
دل سے اٹھا لطف جلوہ ہائے معانی
غیر گل آئینۂ بہار نہیں ہے
قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے
وائے اگر عہد استوار نہیں ہے
تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں
واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پهر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
پهر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کئے ہوئے
پهر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدّت ہوئی ہے سیر چراغاں کئے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوۓ
پهر بهر رہا ہے خامہ مژگاں، بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازیِ دَاماں کئے ہوئے
باہم دِکر ہوئے ہیں دل و دیده پهر رقیب
نظّاره و خیال کا سَاماں کئے ہوئے
دِل پهر طوافِ کوۓ ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کده ویراں کئے ہوئے
پهر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوے
دوڑے ہے پهر ہر ایک گُل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نِگاه کا ساماں کئے ہوے
پهر چاہتا ہوں نامہ دلدار کهولنا
جاں نزرِ دل فریبی عنواں کئے ہوے
مانگے ہے پهر، کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوے
چاہے ہے پهر، کسی کو مقابل میں، آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کئے ہوے
اک نو بہارِ ناز کو تا کے ہے پهر نِگاہ
چہرہ فروغِ مے سے گُلستاں کئے ہوئے
پهر، جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منّتِ درباں کئے ہوئے
جی ڈهونڈتا ہے پهر وہی فرصت کے رات دن
بیٹهے ہیں تصّورِ جاناں کئے ہوئے
غالب! ہمیں نا چهیڑ کہ پهر جوشِ اشک سے
بیٹهے ہیں ہم تہیّہ طوفاں کئے ہوئے
Mirza Ghalib Sad Poetry - Express your feeling with Pakistan’s largest collection of Mirza Ghalib Sad Poetry in Urdu. He was a good at Urdu language. Latest collections of Mirza Ghalib Sad Shayari are here. You want to read your feelings with your loved ones, then say it all with Mirza Ghalib Sad Poetry that can be dedicated and shared easily from this online page.
Mirza Ghalib is celebrated for his soulful and timeless Urdu poetry. His verses explore love, philosophy, and the depths of human emotion.
- cheema , Sialkot
- Wed 10 Sep, 2025
Mirza Ghalib’s poetry captures the depth of emotions like no other — his words linger in the heart long after reading.
- Razaq , Islamabad
- Tue 19 Aug, 2025
Mirza Ghalib's poetry beautifully expresses love, longing, and life’s complexities, touching the heart with its depth and timeless wisdom.
- Gul , Sukkur
- Mon 18 Aug, 2025


