Kal Chaudhwin Ki Raat Thi Shab Bhar Raha Charcha Tera
Poet: Ibn E Insha By: Khawaja Mussadiq Rafiq, KarachiKal Chaudhvin Ki Raat Thi Shab Bhar Raha Charcha Tira
Kuchh Ne Kaha Ye Chand Hai Kuchh Ne Kaha Chehra Tira
Ham Bhi Vahin Maujud The Ham Se Bhi Sab Puchha Kiye
Ham Hans Diye Ham Chup Rahe Manzur Tha Parda Tira
Is Shahr Men Kis Se Milen Ham Se To Chhutin Mahfilen
Har Shakhs Tera Naam Le Har Shakhs Divana Tira
Kuche Ko Tere Chhod Kar Jogi Hi Ban Jaa.En Magar
Jangal Tire Parbat Tire Basti Tiri Sahra Tira
Ham Aur Rasm-E-Bandagi Ashuftagi Uftadgi
Ehsan Hai Kya Kya Tira Ai Husn-E-Be-Parva Tira
Do Ashk Jaane Kis Liye Palkon Pe Aa Kar Tik Ga.E
Altaf Ki Barish Tiri Ikram Ka Dariya Tira
Ai Be-Daregh O Be-Aman Ham Ne Kabhi Ki Hai Fughan
Ham Ko Tiri Vahshat Sahi Ham Ko Sahi Sauda Tira
Ham Par Ye Sakhti Ki Nazar Ham Hain Faqir-E-Rehguzar
Rasta Kabhi Roka Tira Daman Kabhi Thama Tira
Haan Haan Tiri Surat Hasin Lekin Tu Aisa Bhi Nahin
Ik Shakhs Ke Ash.Ar Se Shohra Hua Kya Kya Tira
Bedard Sunni Ho To Chal Kahta Hai Kya Achchhi Ghazal
Ashiq Tira Rusva Tira Sha.Ir Tira 'Insha' Tira
یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بیکلی اس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نارسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
چاند ہے کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے ادھر نہیں ہوتی
دوستو عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
اک بھیک کے دونوں کاسے ہیں اک پیاس کے دونو پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں تم بادل ہو ہم ندیاں ہیں تم ساگر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم ہو کوئی نشتر ہو
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیوں کر ہو
اب حسن کا رتبہ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو
جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو
اب انشاؔ جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن اور رات برابر ہو
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا






