محبت میں کوئی فرمائش نہ کرنا محبت میں کوئی فرمائش نہ کرنا
میری غربت کی پھر نمائش نہ کرنا
جان تو مسکرا کر دوں گا اگر چاہو
وفا کے نام پہ ہجر آزمائش نہ کرنا
خوابوں کی تعبیر ہی بدل جاتی ہے
کبھی خوابوں کی خواہش نہ کرنا
آنکھوں میں پانی دیکھ کے جل نہ جائے
دیکھنا سمندر کے قریب رہائش نہ کرنا
تو نہیں پاس مگر ہے دل میں میرے شاکر
ان فاصلوں کی کبھی پیمائش نہ کرنا نوید احمد شاکر
میری غربت کی پھر نمائش نہ کرنا
جان تو مسکرا کر دوں گا اگر چاہو
وفا کے نام پہ ہجر آزمائش نہ کرنا
خوابوں کی تعبیر ہی بدل جاتی ہے
کبھی خوابوں کی خواہش نہ کرنا
آنکھوں میں پانی دیکھ کے جل نہ جائے
دیکھنا سمندر کے قریب رہائش نہ کرنا
تو نہیں پاس مگر ہے دل میں میرے شاکر
ان فاصلوں کی کبھی پیمائش نہ کرنا نوید احمد شاکر
اب میں رویا نہیں کروں گا گو کہ تیری جدائی میں
ہر شب بےچینی سے گزرے گی
دل کے اندھیر خانوں میں
وحشتوں کا رقص ہوگا
گو کہ تجھ بن راتوں کو
میں اب سویا نہیں کروں گا
پھر بھی جان
اب میں رویا نہیں کروں گا
شب ہجر
تیری یادوں کے سہارے گزار لوں گا
آنکھوں میں آئے اشکوں کو
دل میں اتار لوں گا
اپنے چہرے کو جدائی کے آنسوؤں سے
بھگویا نہیں کروں گا
ہاں جان
اب میں رویا نہیں کروں گا رابعہ منیر
ہر شب بےچینی سے گزرے گی
دل کے اندھیر خانوں میں
وحشتوں کا رقص ہوگا
گو کہ تجھ بن راتوں کو
میں اب سویا نہیں کروں گا
پھر بھی جان
اب میں رویا نہیں کروں گا
شب ہجر
تیری یادوں کے سہارے گزار لوں گا
آنکھوں میں آئے اشکوں کو
دل میں اتار لوں گا
اپنے چہرے کو جدائی کے آنسوؤں سے
بھگویا نہیں کروں گا
ہاں جان
اب میں رویا نہیں کروں گا رابعہ منیر
کیا مسیحا کی نظر ہو گئی کیا مسیحا کی نظر ہو گئی
زندگی اور مختصر ہو گئی
کیا ذکر اس رسوائی کا کریں
جو عزت سے معتبر ہو گئی
زندگی تیرے ساتھ حسیں ہو گی
اک دعا منظور اگر ہو گئی
تجھ کو کیسے خبر ہو اس حال کی
ہر کسی کو جس کی خبر ہو گئی
اک جرم تھا یا آرزو تھی یاد نہیں
زندگی کتنی در بدر ہو گئی
زندگی تو شرمندگی لگتی ہے اب
کیا کہوں کیسے بسر ہو گئی
ہر دعا لب پے سجی رہ گئی
جب پوری ان کی عمر ہو گئی
کچھ نہیں یا سب دے دے اے خدا
ہر دعا اب معتبر ہو گئی
اس امید پے سویا رہا شاکر
کوئی بتائے گا کہ سحر ہو گئی Naveed Ahmed Shakir
زندگی اور مختصر ہو گئی
کیا ذکر اس رسوائی کا کریں
جو عزت سے معتبر ہو گئی
زندگی تیرے ساتھ حسیں ہو گی
اک دعا منظور اگر ہو گئی
تجھ کو کیسے خبر ہو اس حال کی
ہر کسی کو جس کی خبر ہو گئی
اک جرم تھا یا آرزو تھی یاد نہیں
زندگی کتنی در بدر ہو گئی
زندگی تو شرمندگی لگتی ہے اب
کیا کہوں کیسے بسر ہو گئی
ہر دعا لب پے سجی رہ گئی
جب پوری ان کی عمر ہو گئی
کچھ نہیں یا سب دے دے اے خدا
ہر دعا اب معتبر ہو گئی
اس امید پے سویا رہا شاکر
کوئی بتائے گا کہ سحر ہو گئی Naveed Ahmed Shakir
تلخ یادیں ایامِ گزشتہ کی کتاب کے ورق
جب بھی کھولتا ہوں
تم سے منسوب اے آنسو
جان لیوا صدمے ہیں
خونچکاں فسانے ہیں
بے رحم زمانے ہیں
کررہا ہوں اب نفرین
تیرے جبر پر پہیم
ان گنت بہانے ہیں
تم تو آسو کوفی نکلے
گھر سے بلا کر کیا فریب
مشکوک نسب کے وحشی تم کو
ایسا ہی دیتا تھا زیب
اجلاف تمھارے آبا تھے
اور تمھارے وہ ننھیال
شاہی محلے کی زینت تھے
سب سب کے تو تھے ارزال
سائیں سائیں کرتے جنگل میں
جنگل کا قانون تھا نافذ
چام کے دام چلا کر تم نے
مظلوموں کو کیا نڈھال
سفہا کے بل بوتے پر تم نے
مجبوروں کو گھیرا تھا
مجبوروں پر کوہ ستم توڑے تو نے
تیرے عقوبت خانے میں اے وحشی
میرا جوگی والا پھیرا تھا
تیری شقاوت آمیز ناانصافیاں
اور بے رحمانہ مشقِ ستم
مجھے منہدم کر گئی
ان مسموم حالات میں میری بچی
عدم کی وادیوں میں سفر کر گئی
اب بے چراغ آنگن میں
اپنی حسرتوں کے مدفن پر
پوچھتا ہوں میں تم سے
اے راسپوٹین قماش کے وحشی کہاں ہو تم؟
اے راجہ اندر بولو جہاں ہو تم
وہ پریوں کا اکھاڑہ کہاں گیا؟
سب ٹٹو، ٹیرے کدھر گئے
تیرا سب راتب بھاڑا بکھر گیا
رواقیت کے داعی اے خبطی مجنون
تو کہ فرعون بن گیا تھا وہاں
بیگار کیمپ بنا ڈالا تو نے گلشن کو
فطرت کی تعزیروں کو تو بھول گیا
تیرے جور و ستم کی کوئی حد ہی نہ تھی
شعلوں سے بھر ڈالا تو نے
مجبوروں کے آنگن کو
شباہت شمر کے سب افسانے
کتنے تھے مرغوب تجھے
پری چہرہ جتنے بھی تھے
رہے سب کے سب محبوب تجھے
تو سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا تھا
دوشیزاؤں سے ہاتھ ملا کر
خوب ہنہناتا تھا
سب خواب تمھارے بکھر گئے
تمہیں نکالا گیا کمیں گاہ سے ایسے
دودھ سے جیسے مکھی نکالی جاتی ہے
خس و خاشاک سے گلشن پاک ہوا
مظلوموں کے چہرے پھر سے نکھر گئے
فطرت کی تعزیریں تجھ پر نافذ ہیں
تو عبرت کی ایک مثال بنے گا ضرور
خدا کی لاٹھی تیرے سر پر برسے گی
وہ دن دور نہیں ہے جب
کوے اور گدھ تجھ کو نوچیں گے
تیری لاش
گورو کفن کو ترسے گی
سیلِ زماں کا ایک تھپیڑا آئے گا
تیرانام ونشاں نہ کوئی پائے گا
تجھ پر لعنت دنیا بھر کی برسے گی Dr.Ghulam Shabbir Rana
جب بھی کھولتا ہوں
تم سے منسوب اے آنسو
جان لیوا صدمے ہیں
خونچکاں فسانے ہیں
بے رحم زمانے ہیں
کررہا ہوں اب نفرین
تیرے جبر پر پہیم
ان گنت بہانے ہیں
تم تو آسو کوفی نکلے
گھر سے بلا کر کیا فریب
مشکوک نسب کے وحشی تم کو
ایسا ہی دیتا تھا زیب
اجلاف تمھارے آبا تھے
اور تمھارے وہ ننھیال
شاہی محلے کی زینت تھے
سب سب کے تو تھے ارزال
سائیں سائیں کرتے جنگل میں
جنگل کا قانون تھا نافذ
چام کے دام چلا کر تم نے
مظلوموں کو کیا نڈھال
سفہا کے بل بوتے پر تم نے
مجبوروں کو گھیرا تھا
مجبوروں پر کوہ ستم توڑے تو نے
تیرے عقوبت خانے میں اے وحشی
میرا جوگی والا پھیرا تھا
تیری شقاوت آمیز ناانصافیاں
اور بے رحمانہ مشقِ ستم
مجھے منہدم کر گئی
ان مسموم حالات میں میری بچی
عدم کی وادیوں میں سفر کر گئی
اب بے چراغ آنگن میں
اپنی حسرتوں کے مدفن پر
پوچھتا ہوں میں تم سے
اے راسپوٹین قماش کے وحشی کہاں ہو تم؟
اے راجہ اندر بولو جہاں ہو تم
وہ پریوں کا اکھاڑہ کہاں گیا؟
سب ٹٹو، ٹیرے کدھر گئے
تیرا سب راتب بھاڑا بکھر گیا
رواقیت کے داعی اے خبطی مجنون
تو کہ فرعون بن گیا تھا وہاں
بیگار کیمپ بنا ڈالا تو نے گلشن کو
فطرت کی تعزیروں کو تو بھول گیا
تیرے جور و ستم کی کوئی حد ہی نہ تھی
شعلوں سے بھر ڈالا تو نے
مجبوروں کے آنگن کو
شباہت شمر کے سب افسانے
کتنے تھے مرغوب تجھے
پری چہرہ جتنے بھی تھے
رہے سب کے سب محبوب تجھے
تو سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا تھا
دوشیزاؤں سے ہاتھ ملا کر
خوب ہنہناتا تھا
سب خواب تمھارے بکھر گئے
تمہیں نکالا گیا کمیں گاہ سے ایسے
دودھ سے جیسے مکھی نکالی جاتی ہے
خس و خاشاک سے گلشن پاک ہوا
مظلوموں کے چہرے پھر سے نکھر گئے
فطرت کی تعزیریں تجھ پر نافذ ہیں
تو عبرت کی ایک مثال بنے گا ضرور
خدا کی لاٹھی تیرے سر پر برسے گی
وہ دن دور نہیں ہے جب
کوے اور گدھ تجھ کو نوچیں گے
تیری لاش
گورو کفن کو ترسے گی
سیلِ زماں کا ایک تھپیڑا آئے گا
تیرانام ونشاں نہ کوئی پائے گا
تجھ پر لعنت دنیا بھر کی برسے گی Dr.Ghulam Shabbir Rana
آؤ مل کر دوبارہ ڈھونڈتے ہیں آؤ مل کر دوبارہ ڈھونڈتے ہیں
کہیں موت کا اشارہ ڈھونڈتے ہیں
سورج کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر
آسماں پہ کوئی ستارہ ڈھونڈتے ہیں
سارا محتاج ہے جو کسی اور کا
اس شہر میں ہم سہارہ ڈھونڈتے ہیں
ہوا ہے بھلا کبھی کسی کو عشق میں
کیسے لوگ ہیں خسارہ ڈھونڈتے ہیں
جان بوجھ کر آنکھوں میں ڈوب کر
پھر کیوں لوگ کنارہ ڈھونڈتے ہیں
شاکر ملا نہیں ہمیں کہیں بھی یہاں
ہم نعم البدل تمھارا ڈھونڈتے ہیں Naveed Ahmed Shakir
کہیں موت کا اشارہ ڈھونڈتے ہیں
سورج کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر
آسماں پہ کوئی ستارہ ڈھونڈتے ہیں
سارا محتاج ہے جو کسی اور کا
اس شہر میں ہم سہارہ ڈھونڈتے ہیں
ہوا ہے بھلا کبھی کسی کو عشق میں
کیسے لوگ ہیں خسارہ ڈھونڈتے ہیں
جان بوجھ کر آنکھوں میں ڈوب کر
پھر کیوں لوگ کنارہ ڈھونڈتے ہیں
شاکر ملا نہیں ہمیں کہیں بھی یہاں
ہم نعم البدل تمھارا ڈھونڈتے ہیں Naveed Ahmed Shakir
Nahr K Kinary Nahr K Knary Jarahy Thy Do Raj Dulary
Hath Ma Daly Hath
Dil Ma The Ajb Bat
Khamoshyan Zuban Pr Then
Sansen Bhe Kuch Ruke Ce Then
Bah Raha Tha Nahr Ka Pane
Kah Raha Tha Un Ke Kahane
Achanik Agya Ak Mor
Jis Ny Dilon Ko Rkh Dya Tor
Hath Sy Hath Chot Gya
Spna Sacha Tot Gya
Jasy Khuda Bhe Roth Gya
Juda Hwy Phr Raj Dulary
Bahty Rahy Youn He Nahr Kinary Anjo
Hath Ma Daly Hath
Dil Ma The Ajb Bat
Khamoshyan Zuban Pr Then
Sansen Bhe Kuch Ruke Ce Then
Bah Raha Tha Nahr Ka Pane
Kah Raha Tha Un Ke Kahane
Achanik Agya Ak Mor
Jis Ny Dilon Ko Rkh Dya Tor
Hath Sy Hath Chot Gya
Spna Sacha Tot Gya
Jasy Khuda Bhe Roth Gya
Juda Hwy Phr Raj Dulary
Bahty Rahy Youn He Nahr Kinary Anjo
دیکھا ہے دلوں سے اٹھتا ہوا اک طوفان دیکھا ہے
جہاں بکتے تھے بدن اب ایمان دیکھا ہے
خزاں کا موسم پھر چمن میں نہیں لوٹا کہ
بہاروں میں اس نے اجڑتا گلستان دیکھا ہے
اپنے شہر کے حالات کی جن کو نہیں خبر
دعویٰ ہے ان کا ہم نے اک جہان دیکھا ہے
پھولوں کا ہار پہن کے مسکرانے والوں نے
کہاں کانٹوں میں الجھا کسی کا گریبان دیکھا ہے
کل پھر مہندی کی آرزو لئے جو مر جائے گی
ایسی ہی اک لڑکی کو میں نے جوان دیکھا ہے Nowsherwan Anjum
جہاں بکتے تھے بدن اب ایمان دیکھا ہے
خزاں کا موسم پھر چمن میں نہیں لوٹا کہ
بہاروں میں اس نے اجڑتا گلستان دیکھا ہے
اپنے شہر کے حالات کی جن کو نہیں خبر
دعویٰ ہے ان کا ہم نے اک جہان دیکھا ہے
پھولوں کا ہار پہن کے مسکرانے والوں نے
کہاں کانٹوں میں الجھا کسی کا گریبان دیکھا ہے
کل پھر مہندی کی آرزو لئے جو مر جائے گی
ایسی ہی اک لڑکی کو میں نے جوان دیکھا ہے Nowsherwan Anjum
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو
کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو علی جاوید بلوچ
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو
کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو علی جاوید بلوچ
رانگ نمبر میں نے لگایا رانگ نمبر کی اس نے ہیلو
کیا سلام، دیا جواب، ہو گئی ہم میں ہیلو ہیلو
کہا کہ میں ابھی بزی ہوں کل کو کرنا کال
مطلب دال میں کالا نہیں، کالی ہے ساری دال
اگلے دن کال لگائی، وہ منتظر جیسے بیٹھی تھی
لپک کے بولی میں ابھی فارغ ہو کے ہی بیٹھی تھی
ایسے لگا صدیوں سے مجھے وہ جانتی ہو
مجھ کو مجھ ہی سے زیادہ وہ پہچانتی ہو
اس کی باتوں کا نشہ تھا یا تھی کوئی ایسی بات
سو نہ سکا میں، کٹ گئی پلکوں میں ساری رات
ہم کو جیسے جیسے لو ہونے لگا
چرچا دھیرے دھیرے ہر سو ہونے لگا
محبت کا تھا عروج ہوئے کئی عہد وفا
پیار ہمارا بڑھا تو بس بڑھتا ہی گیا
محبت کی ہم نے ایسی مثال قائم کرڈالی
گر سوچے کوئی تو زندگی ہی بدل ڈالی
آج جاوید کی آنکھ کا وہ تارا ہے
میرا جیون ساتھی بڑا ہی پیارا ہے
Muhammad Hafeez Javed
کیا سلام، دیا جواب، ہو گئی ہم میں ہیلو ہیلو
کہا کہ میں ابھی بزی ہوں کل کو کرنا کال
مطلب دال میں کالا نہیں، کالی ہے ساری دال
اگلے دن کال لگائی، وہ منتظر جیسے بیٹھی تھی
لپک کے بولی میں ابھی فارغ ہو کے ہی بیٹھی تھی
ایسے لگا صدیوں سے مجھے وہ جانتی ہو
مجھ کو مجھ ہی سے زیادہ وہ پہچانتی ہو
اس کی باتوں کا نشہ تھا یا تھی کوئی ایسی بات
سو نہ سکا میں، کٹ گئی پلکوں میں ساری رات
ہم کو جیسے جیسے لو ہونے لگا
چرچا دھیرے دھیرے ہر سو ہونے لگا
محبت کا تھا عروج ہوئے کئی عہد وفا
پیار ہمارا بڑھا تو بس بڑھتا ہی گیا
محبت کی ہم نے ایسی مثال قائم کرڈالی
گر سوچے کوئی تو زندگی ہی بدل ڈالی
آج جاوید کی آنکھ کا وہ تارا ہے
میرا جیون ساتھی بڑا ہی پیارا ہے
Muhammad Hafeez Javed
یقیں نہیں آتا ترک تعلق تو اس طرح نہ مجھ سے کرتا
کوئی شکایت تھی اگر تو گلہ مجھ سے کرتا
بچھڑ کے کیوں خود کو بھی اذیت دیتا ہے
اس کو کرنا تھا اگر تو برا مجھ سے کرتا
میں بے وفا تھا تو کیوں چھوڑ گیا مجھ کو
وہ جو باوفا تھا تو وفا مجھ سے کرتا
ہم میں اگر نہ ہوتی خودسری کی خو
کس کی جرات تھی تجھ کو جدا مجھ سے کرتا
ضرور کوئی مجبوری ہو گی راسخ ‘ ورنہ
یقیں نہیں آتا کہ وہ ایسا مجھ سے کرتا Fozia tariq
کوئی شکایت تھی اگر تو گلہ مجھ سے کرتا
بچھڑ کے کیوں خود کو بھی اذیت دیتا ہے
اس کو کرنا تھا اگر تو برا مجھ سے کرتا
میں بے وفا تھا تو کیوں چھوڑ گیا مجھ کو
وہ جو باوفا تھا تو وفا مجھ سے کرتا
ہم میں اگر نہ ہوتی خودسری کی خو
کس کی جرات تھی تجھ کو جدا مجھ سے کرتا
ضرور کوئی مجبوری ہو گی راسخ ‘ ورنہ
یقیں نہیں آتا کہ وہ ایسا مجھ سے کرتا Fozia tariq
جواب رانگ نمبر اک دن آیا رانگ نمبر، کر لی میں نے بات
آواز میں تھا کچھ ایسا جادو، دل ہو گیا شاد
باتیں اسکی تھیں بہت ہی پیاری پیاری
مر مٹی میں اس پہ، ساری کی ساری
اسکی باتوں میں اکثر کھو جانے لگی
اپنے خیالوں میں اسکو بسانے لگی
اک گمنام سا چہرہ دل کو لبھانے لگا
میرے سپنوں کو وہ رنگیں بنانے لگا
دل و جان سے میں اسکو چاہنے لگی
اسکے سپنوں میں بھی چھانے لگی
بات ہی بات میں بات کچھ ایسی ہو گئی
وہ میرا ہو گیا، میں بھی اسکی ہو گئی Muhammad Hafeez Javed
آواز میں تھا کچھ ایسا جادو، دل ہو گیا شاد
باتیں اسکی تھیں بہت ہی پیاری پیاری
مر مٹی میں اس پہ، ساری کی ساری
اسکی باتوں میں اکثر کھو جانے لگی
اپنے خیالوں میں اسکو بسانے لگی
اک گمنام سا چہرہ دل کو لبھانے لگا
میرے سپنوں کو وہ رنگیں بنانے لگا
دل و جان سے میں اسکو چاہنے لگی
اسکے سپنوں میں بھی چھانے لگی
بات ہی بات میں بات کچھ ایسی ہو گئی
وہ میرا ہو گیا، میں بھی اسکی ہو گئی Muhammad Hafeez Javed
جہاں ٹوٹ جاتی ہیں ساری امیدیں نبیوں کے ناموں میں نام محمد
عیاں کر رہا ہے مقام محمد
جہاں سر جھکے وہ مقام خدا ہے
جہاں دل جھکے ہے مقام محمد
جہاں ٹوٹ جاتی ہیں ساری امیدیں
وہاں کام آتا ہے نام محمد
وقار اس لیے دل کی کرتا ہوں عظمت
میرے دل پہ کندہ ہے نام محمد
نوٹ۔ محترم وقار جعفری صاحب کی شائع شدہ نعت شریف میں سیہون کچھ غلطیاں شائع ہوگئی ہیں اصلاح کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش ہے Syed Abdul Lateef
عیاں کر رہا ہے مقام محمد
جہاں سر جھکے وہ مقام خدا ہے
جہاں دل جھکے ہے مقام محمد
جہاں ٹوٹ جاتی ہیں ساری امیدیں
وہاں کام آتا ہے نام محمد
وقار اس لیے دل کی کرتا ہوں عظمت
میرے دل پہ کندہ ہے نام محمد
نوٹ۔ محترم وقار جعفری صاحب کی شائع شدہ نعت شریف میں سیہون کچھ غلطیاں شائع ہوگئی ہیں اصلاح کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش ہے Syed Abdul Lateef
غزل بہادر شاہ ظفر کی زمین میں جو فنا کے بوجھ سے دب گیا میں اسی کا نقش و نگار ہوں
جو مٹا ہے راہ امید میں اسی کارواں کا غبار ہوں
جسے آ سکی نا کبھی ہنسی جسے چھو کے بھی نا گئی خوشی
نہیں باقی جس کا نشان بھی میں مٹا ہوا وہ مزار ہوں
جو نا رو سکا نا تڑپ سکا جو زباں سے اف بھی نا کرسکا
وہ نوید بستا زبان ہوں نا میں چیخ ہوں نا پکار ہوں S.A.Lateef (Naveed Jaffri)
جو مٹا ہے راہ امید میں اسی کارواں کا غبار ہوں
جسے آ سکی نا کبھی ہنسی جسے چھو کے بھی نا گئی خوشی
نہیں باقی جس کا نشان بھی میں مٹا ہوا وہ مزار ہوں
جو نا رو سکا نا تڑپ سکا جو زباں سے اف بھی نا کرسکا
وہ نوید بستا زبان ہوں نا میں چیخ ہوں نا پکار ہوں S.A.Lateef (Naveed Jaffri)
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے ۔۔۔۔ ایک گیت دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
کی رکھیا اے میں کی جانڑاں
جیہڑا بیٹھا ٹُک ٹُک کھاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
اگ وردی اے، مینہہ پیندا اے
اے پنگے جا جا لیندا اے
میں لکھ آکھاں میرے نیڑے بیہہ
اے اوس دوالے رہندا اے
فر ڈھیر پھواڑے پاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
کوئی تکدا اے، کوئی ہسدا اے
اے پاگل وانگو نسدا اے
کیہڑی چور کڑکی لائی آ
جو ہسدا ہسدا پھسدا اے
تیرا دانا چُگ چُگ کھاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
چل منت اے ہن پھس جا توں
میری بن جاویں گی دس جا توں
اے بھاں بھاں کردا ویہڑا اے
گھر خالی اے آ وس جا توں
اے مینوں مغروں لاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
AzharM
کی رکھیا اے میں کی جانڑاں
جیہڑا بیٹھا ٹُک ٹُک کھاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
اگ وردی اے، مینہہ پیندا اے
اے پنگے جا جا لیندا اے
میں لکھ آکھاں میرے نیڑے بیہہ
اے اوس دوالے رہندا اے
فر ڈھیر پھواڑے پاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
کوئی تکدا اے، کوئی ہسدا اے
اے پاگل وانگو نسدا اے
کیہڑی چور کڑکی لائی آ
جو ہسدا ہسدا پھسدا اے
تیرا دانا چُگ چُگ کھاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
چل منت اے ہن پھس جا توں
میری بن جاویں گی دس جا توں
اے بھاں بھاں کردا ویہڑا اے
گھر خالی اے آ وس جا توں
اے مینوں مغروں لاندا اے
دل کوٹھے ٹپ ٹپ جاندا اے
AzharM
وہ سب فریب ہے جو کچھ بھی اختیار میں ہے یہ میری ذات تیرے لطف کے حصار میں ہے
ثبوت ہے یہ تپش دل کے جو شرار میں ہے
تمہارا بندہ مجبور کس شمار میں ہے
وہ سب فریب ہے جو کچھ بھی اختیار میں ہے
ادھر اجل تو بلانے کے انتظار میں ہے
ادھر حیات ہے کہ ہستی کے اعتبار میں ہے
یہی تو اہل چمن آج تک سمجھ نہ سکے
کہ آج بھی یہ چمن کس کے اختیار میں ہے
کسی کے آگے وہ مجبور رہ نہی سکتا
وہ ذی شعور تمہارے جو اختیار میں ہے
وہ مجھ کو بھول بھی جائیں تو کیا گلہ ہے نوید
میں اس کو یاد کروں یہ تو اختیار میں ہے Syed Abdul Lateef
ثبوت ہے یہ تپش دل کے جو شرار میں ہے
تمہارا بندہ مجبور کس شمار میں ہے
وہ سب فریب ہے جو کچھ بھی اختیار میں ہے
ادھر اجل تو بلانے کے انتظار میں ہے
ادھر حیات ہے کہ ہستی کے اعتبار میں ہے
یہی تو اہل چمن آج تک سمجھ نہ سکے
کہ آج بھی یہ چمن کس کے اختیار میں ہے
کسی کے آگے وہ مجبور رہ نہی سکتا
وہ ذی شعور تمہارے جو اختیار میں ہے
وہ مجھ کو بھول بھی جائیں تو کیا گلہ ہے نوید
میں اس کو یاد کروں یہ تو اختیار میں ہے Syed Abdul Lateef