Ambreen Haseeb Amber Ghazal
Ambreen Haseeb Amber Ghazal is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Ambreen Haseeb Amber Ghazal that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Ambreen Haseeb Amber Ghazal compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
توبہ ہے میں ہوں، تم ہو، اک دنیا ہے۔۔۔توبہ ہے
سارا عالم دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔ توبہ ہے
سب سے بچ کر اک نظر تم نے دیکھا
اور یہاں جو دل ڈھرکا ہے۔۔۔۔ توبہ ہے
چھیڑ رہی تھی زلف کو چنچل شوخ ہوا
میں یہ سمجھی تم نے چھوا ہے۔۔۔۔ توبہ ہے
میں نے تم سے دل میں ڈھیروں باتیں کی
تمکو خامشی کا گلہ ہے۔۔۔۔۔ توبہ ہے
تم نے پکارا نام کسی کا محفل میں
میں نے اپنا نام سنا ہے ۔۔۔۔۔۔ توبہ ہے
تم نے کہا تھا آپ سے مل کر خوشی ہوئی
لیکن میں نے جو سمجھا ہے ۔۔۔۔۔ توبہ ہے
سارا عالم دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔ توبہ ہے
سب سے بچ کر اک نظر تم نے دیکھا
اور یہاں جو دل ڈھرکا ہے۔۔۔۔ توبہ ہے
چھیڑ رہی تھی زلف کو چنچل شوخ ہوا
میں یہ سمجھی تم نے چھوا ہے۔۔۔۔ توبہ ہے
میں نے تم سے دل میں ڈھیروں باتیں کی
تمکو خامشی کا گلہ ہے۔۔۔۔۔ توبہ ہے
تم نے پکارا نام کسی کا محفل میں
میں نے اپنا نام سنا ہے ۔۔۔۔۔۔ توبہ ہے
تم نے کہا تھا آپ سے مل کر خوشی ہوئی
لیکن میں نے جو سمجھا ہے ۔۔۔۔۔ توبہ ہے
Rehan
تم بھی ناں دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو تم بھی ناں
خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو تم بھی ناں
مانگ رہے ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو تم بھی ناں
خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو تم بھی ناں
مانگ رہے ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو تم بھی ناں
Saad
اے خدا عجب ہے ترا جہاں مرا دل یہاں پہ لگا نہیں اے خدا عجب ہے ترا جہاں مرا دل یہاں پہ لگا نہیں
جہاں کوئی اہل وفا نہیں کسی لب پہ حرف دعا نہیں
بڑا شور تھا ترے شہر کا سو گزار آئے ہیں دن وہاں
وہ سکوں کہ جس کی تلاش ہے ترے شہر میں بھی ملا نہیں
یہ جو حشر برپا ہے ہر طرف تو بس اس کا ہے یہی اک سبب
ہے لبوں پہ نام خدا مگر کسی دل میں خوف خدا نہیں
جو ہنسی ہے لب پہ سجی ہوئی تو یہ صرف ضبط کا فرق ہے
مرے دل میں بھی وہی زخم ہیں مرا حال تجھ سے جدا نہیں
یہ جو دشت دل میں ہیں رونقیں یہ تری عطا کے طفیل ہیں
دیا زخم جو وہ ہرا رہا جو دیا جلا وہ بجھا نہیں
اے خدا عجب ہے تری رضا کوئی بھید اس کا نہ پا سکا
کہ ملا تو مل گیا بے طلب جسے مانگتے تھے ملا نہیں
وہ جو حرف حق تھا لکھا گیا کسی شام خون سے ریت پر
ہے گواہ موجۂ وقت بھی کہ وہ حرف اس سے مٹا نہیں
جہاں کوئی اہل وفا نہیں کسی لب پہ حرف دعا نہیں
بڑا شور تھا ترے شہر کا سو گزار آئے ہیں دن وہاں
وہ سکوں کہ جس کی تلاش ہے ترے شہر میں بھی ملا نہیں
یہ جو حشر برپا ہے ہر طرف تو بس اس کا ہے یہی اک سبب
ہے لبوں پہ نام خدا مگر کسی دل میں خوف خدا نہیں
جو ہنسی ہے لب پہ سجی ہوئی تو یہ صرف ضبط کا فرق ہے
مرے دل میں بھی وہی زخم ہیں مرا حال تجھ سے جدا نہیں
یہ جو دشت دل میں ہیں رونقیں یہ تری عطا کے طفیل ہیں
دیا زخم جو وہ ہرا رہا جو دیا جلا وہ بجھا نہیں
اے خدا عجب ہے تری رضا کوئی بھید اس کا نہ پا سکا
کہ ملا تو مل گیا بے طلب جسے مانگتے تھے ملا نہیں
وہ جو حرف حق تھا لکھا گیا کسی شام خون سے ریت پر
ہے گواہ موجۂ وقت بھی کہ وہ حرف اس سے مٹا نہیں
Ameer Hamza
کب موسم بہار پکارا نہیں کیا کب موسم بہار پکارا نہیں کیا
ہم نے ترے بغیر گوارہ نہیں کیا
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
مل جائے خاک میں نہ کہیں اس خیال سے
آنکھوں نے کوئی عشق ستارا نہیں کیا
اک عمر کے عذاب کا حاصل وہیں بہشت
دو چار دن جہاں پہ گزارا نہیں کیا
اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی
ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا
اب ہنس کے تیرے ناز اٹھائیں تو کس لیے
تو نے بھی تو لحاظ ہمارا نہیں کیا
ہم نے ترے بغیر گوارہ نہیں کیا
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
مل جائے خاک میں نہ کہیں اس خیال سے
آنکھوں نے کوئی عشق ستارا نہیں کیا
اک عمر کے عذاب کا حاصل وہیں بہشت
دو چار دن جہاں پہ گزارا نہیں کیا
اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی
ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا
اب ہنس کے تیرے ناز اٹھائیں تو کس لیے
تو نے بھی تو لحاظ ہمارا نہیں کیا
Umair Khan
بہتے ہوئے اشکوں کی روانی نہیں لکھی بہتے ہوئے اشکوں کی روانی نہیں لکھی
میں نے غم ہجراں کی کہانی نہیں لکھی
جس دن سے ترے ہاتھ سے چھوٹا ہے مرا ہاتھ
اس دن سے کوئی شام سہانی نہیں لکھی
کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل
میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی
الفاظ سے کاغذ پہ سجائی ہے جو دنیا
جز اپنے کوئی چیز بھی فانی نہیں لکھی
تشہیر تو مقصود نہیں قصۂ دل کی
سو تجھ کو لکھا تیری نشانی نہیں لکھی
میں نے غم ہجراں کی کہانی نہیں لکھی
جس دن سے ترے ہاتھ سے چھوٹا ہے مرا ہاتھ
اس دن سے کوئی شام سہانی نہیں لکھی
کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل
میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی
الفاظ سے کاغذ پہ سجائی ہے جو دنیا
جز اپنے کوئی چیز بھی فانی نہیں لکھی
تشہیر تو مقصود نہیں قصۂ دل کی
سو تجھ کو لکھا تیری نشانی نہیں لکھی
Anila
عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے
زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے
طلسماتی کوئی قصہ ہے دنیا
یہاں ہر دن نئی اک داستاں ہے
جو تم ہو تو یہ کیسے مان لوں میں
کہ جو کچھ ہے یہاں بس اک گماں ہے
سروں پر آسماں ہوتے ہوئے بھی
جسے دیکھو وحی بے سائباں ہے
کسی دھرتی کی شاید ریت ہوگی
ہمارے واسطے جو کہکشاں ہے
اگر تھا چند روزہ موسم گل
تو پھر دو چار ہی دن کی خزاں ہے
جسے عمر رواں کہتے ہیں عنبرؔ
چلو دیکھیں کہاں تک رائیگاں ہے
زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے
طلسماتی کوئی قصہ ہے دنیا
یہاں ہر دن نئی اک داستاں ہے
جو تم ہو تو یہ کیسے مان لوں میں
کہ جو کچھ ہے یہاں بس اک گماں ہے
سروں پر آسماں ہوتے ہوئے بھی
جسے دیکھو وحی بے سائباں ہے
کسی دھرتی کی شاید ریت ہوگی
ہمارے واسطے جو کہکشاں ہے
اگر تھا چند روزہ موسم گل
تو پھر دو چار ہی دن کی خزاں ہے
جسے عمر رواں کہتے ہیں عنبرؔ
چلو دیکھیں کہاں تک رائیگاں ہے
zeeshan
جب سے زندگی ہوا دل گردش تقدیر کا جب سے زندگی ہوا دل گردش تقدیر کا
روز بڑھ جاتا ہے اک حلقہ مری زنجیر کا
میرے حصہ میں کہاں تھیں عجلتوں کی منزلیں
میرے قدموں کو سدا رستہ ملا تاخیر سے
کس لیے بربادیوں کا دل کو ہے اتنا ملال
اور کیا اندازہ ہو خمیازۂ تعمیر کا
خون دل جن کی گواہی میں ہوا نذر وفا
رنگ تو وہ اڑ گئے اب کیا کروں تصویر کا
میں نے سمجھا تیری چاہت کو فقط انعام زیست
مجھ کو اندازہ نہ تھا اس جرم اس تعزیر کا
ایک لب تک ہی نہ پہنچی جو دعا تھی مستجاب
کس قدر چرچا ہوا ہے آہ بے تاثیر کا
لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے
سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا
روز بڑھ جاتا ہے اک حلقہ مری زنجیر کا
میرے حصہ میں کہاں تھیں عجلتوں کی منزلیں
میرے قدموں کو سدا رستہ ملا تاخیر سے
کس لیے بربادیوں کا دل کو ہے اتنا ملال
اور کیا اندازہ ہو خمیازۂ تعمیر کا
خون دل جن کی گواہی میں ہوا نذر وفا
رنگ تو وہ اڑ گئے اب کیا کروں تصویر کا
میں نے سمجھا تیری چاہت کو فقط انعام زیست
مجھ کو اندازہ نہ تھا اس جرم اس تعزیر کا
ایک لب تک ہی نہ پہنچی جو دعا تھی مستجاب
کس قدر چرچا ہوا ہے آہ بے تاثیر کا
لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے
سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا
Zaid
ہو گئی بات پرانی پھر بھی ہو گئی بات پرانی پھر بھی
یاد ہے مجھ کو زبانی پھر بھی
موجۂ غم نے تو دم توڑ دیا
رہ گیا آنکھ میں پانی پھر بھی
میں نے سوچا بھی نہیں تھا اس کو
ہو گئی شام سہانی پھر بھی
چشم نم نے اسے جاتے دیکھا
دل نے یہ بات نہ مانی پھر بھی
لوگ ارزاں ہوئے جاتے ہیں یہاں
بڑھتی جاتی ہے گرانی پھر بھی
بریدہ لائے ہو دربار میں تم
یاد ہے شعلہ بیانی پھر بھی
بھول جوتے ہیں مسافر رستہ
لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی
یاد ہے مجھ کو زبانی پھر بھی
موجۂ غم نے تو دم توڑ دیا
رہ گیا آنکھ میں پانی پھر بھی
میں نے سوچا بھی نہیں تھا اس کو
ہو گئی شام سہانی پھر بھی
چشم نم نے اسے جاتے دیکھا
دل نے یہ بات نہ مانی پھر بھی
لوگ ارزاں ہوئے جاتے ہیں یہاں
بڑھتی جاتی ہے گرانی پھر بھی
بریدہ لائے ہو دربار میں تم
یاد ہے شعلہ بیانی پھر بھی
بھول جوتے ہیں مسافر رستہ
لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی
Erma
اک گلی سے خوشبو کی رسم و راہ کافی ہے اک گلی سے خوشبو کی رسم و راہ کافی ہے
لاکھ جبر موسم ہو یہ پناہ کافی ہے
نیت زلیخا کی کھوج میں رہے دنیا
اپنی بے گناہی کو دل گواہ کافی ہے
عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت
خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے
آسماں پہ جا بیٹھے یہ خبر نہیں تم کو
عرش کے ہلانے کو ایک گناہ کافی ہے
پیروی سے ممکن ہے کب رسائی منزل تک
نقش پا مٹانے کو گرد راہ کافی ہے
چار دن کی ہستی میں ہنس کے جی لیے عنبرؔ
بے نشاط دنیا سے یہ نباہ کافی ہے
لاکھ جبر موسم ہو یہ پناہ کافی ہے
نیت زلیخا کی کھوج میں رہے دنیا
اپنی بے گناہی کو دل گواہ کافی ہے
عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت
خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے
آسماں پہ جا بیٹھے یہ خبر نہیں تم کو
عرش کے ہلانے کو ایک گناہ کافی ہے
پیروی سے ممکن ہے کب رسائی منزل تک
نقش پا مٹانے کو گرد راہ کافی ہے
چار دن کی ہستی میں ہنس کے جی لیے عنبرؔ
بے نشاط دنیا سے یہ نباہ کافی ہے
zawar
تمہارا جو سہارا ہو گیا ہے تمہارا جو سہارا ہو گیا ہے
بھنور بھی اب کنارا ہو گیا ہے
محبت میں بھلا کیا اور ہوتا
مرا یہ دل تمہارا ہو گیا ہے
تمہاری یاد سے ہے وہ چراغاں
کی آنسو بھی ستارا ہو گیا ہے
عجب ہے موسم بے اختیاری
کی جب سے وہ ہمارا ہو گیا
اک ان جانی خوشی کے آسرے میں
ہمیں ہر غم گوارا ہو گیا ہے
ہمیں کب راس آ سکتی تھی دنیا
غنیمت ہے گزارا ہو گیا ہے
جنہیں رہتا تھا زعم دل فروشی
انہیں اب کے خسارہ ہو گیا ہے
بھنور بھی اب کنارا ہو گیا ہے
محبت میں بھلا کیا اور ہوتا
مرا یہ دل تمہارا ہو گیا ہے
تمہاری یاد سے ہے وہ چراغاں
کی آنسو بھی ستارا ہو گیا ہے
عجب ہے موسم بے اختیاری
کی جب سے وہ ہمارا ہو گیا
اک ان جانی خوشی کے آسرے میں
ہمیں ہر غم گوارا ہو گیا ہے
ہمیں کب راس آ سکتی تھی دنیا
غنیمت ہے گزارا ہو گیا ہے
جنہیں رہتا تھا زعم دل فروشی
انہیں اب کے خسارہ ہو گیا ہے
Faiz ul Raheem
جسم و جاں میں در آئی اس قدر اذیت کیوں جسم و جاں میں در آئی اس قدر اذیت کیوں
زندگی بھلا تجھ سے ہو رہی ہے وحشت کیوں
سلسلہ محبت کا صرف خواب ہی رہتا
اپنے درمیاں آخر آ گئی حقیقت کیوں
فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے
پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں
یہ عجیب الجھن ہے کس سے پوچھنے جائیں
آئنے میں رہتی ہے صرف ایک صورت کیوں
کر و فر سے نکلے تھے جو سمیٹنے دنیا
بھر کے اپنے دامن میں آ گئے ندامت کیوں
آپ سے مخاطب ہوں آپ ہی کے لہجے میں
پھر یہ برہمی کیسی اور یہ شکایت کیوں
زندگی بھلا تجھ سے ہو رہی ہے وحشت کیوں
سلسلہ محبت کا صرف خواب ہی رہتا
اپنے درمیاں آخر آ گئی حقیقت کیوں
فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے
پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں
یہ عجیب الجھن ہے کس سے پوچھنے جائیں
آئنے میں رہتی ہے صرف ایک صورت کیوں
کر و فر سے نکلے تھے جو سمیٹنے دنیا
بھر کے اپنے دامن میں آ گئے ندامت کیوں
آپ سے مخاطب ہوں آپ ہی کے لہجے میں
پھر یہ برہمی کیسی اور یہ شکایت کیوں
Zaid
زندگی بھر ایک ہی کار ہنر کرتے رہے زندگی بھر ایک ہی کار ہنر کرتے رہے
اک گھروندا ریت کا تھا جس کو گھر کرتے رہے
ہم کو بھی معلوم تھا انجام کیا ہوگا مگر
شہر کوفہ کی طرف ہم بھی سفر کرتے رہے
اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں
انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے
یوں تو ہم بھی کون سا زندہ رہے اس شہر میں
زندہ ہونے کی اداکاری مگر کرتے رہے
آنکھ رہ تکتی رہی دل اس کو سمجھاتا رہا
اپنا اپنا کام دونوں عمر بھر کرتے رہے
اک نہیں کا خوف تھا سو ہم نے پوچھا ہی نہیں
یاد کیا ہم کو بھی وہ دیوار و در کرتے رہے
اک گھروندا ریت کا تھا جس کو گھر کرتے رہے
ہم کو بھی معلوم تھا انجام کیا ہوگا مگر
شہر کوفہ کی طرف ہم بھی سفر کرتے رہے
اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں
انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے
یوں تو ہم بھی کون سا زندہ رہے اس شہر میں
زندہ ہونے کی اداکاری مگر کرتے رہے
آنکھ رہ تکتی رہی دل اس کو سمجھاتا رہا
اپنا اپنا کام دونوں عمر بھر کرتے رہے
اک نہیں کا خوف تھا سو ہم نے پوچھا ہی نہیں
یاد کیا ہم کو بھی وہ دیوار و در کرتے رہے
Zumra
چراغ گھر میں جلا نہیں ہے چراغ گھر میں جلا نہیں ہے
یہ رات کا مسئلہ نہیں ہے
یہ رات تم سے نہیں کٹے گی
یہ ہجر ہے رت جگا نہیں ہے
دلیل منطق نہیں چلے گی
یہ عشق ہے فلسفہ نہیں ہے
یہ عشق ہے بندگی سمجھ مت
تو آدمی ہے خدا نہیں ہے
ہے رنج کیوں حال دل پہ آخر
یہ قصہ تو نے سنا نہیں ہے
خود اپنے دشمن ہیں لوگ سارے
نہیں کوئی دوسرا نہیں ہے
ہوا سے لو تھرتھرا گئی تھی
چراغ لیکن بجھا نہیں ہے
یہ رات کا مسئلہ نہیں ہے
یہ رات تم سے نہیں کٹے گی
یہ ہجر ہے رت جگا نہیں ہے
دلیل منطق نہیں چلے گی
یہ عشق ہے فلسفہ نہیں ہے
یہ عشق ہے بندگی سمجھ مت
تو آدمی ہے خدا نہیں ہے
ہے رنج کیوں حال دل پہ آخر
یہ قصہ تو نے سنا نہیں ہے
خود اپنے دشمن ہیں لوگ سارے
نہیں کوئی دوسرا نہیں ہے
ہوا سے لو تھرتھرا گئی تھی
چراغ لیکن بجھا نہیں ہے
Qaiser
وہ مسیحا نہ بنا ہم نے بھی خواہش نہیں کی وہ مسیحا نہ بنا ہم نے بھی خواہش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیے اس سے گزارش نہیں کی
اس نے اک روز کیا ہم سے اچانک وہ سوال
دھڑکنیں تھم سی گئیں وقت نے جنبش نہیں کی
کس لئے بجھنے لگے اول شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی
ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
اس نے ظاہر نہ کیا اپنا پشیماں ہونا
ہم بھی انجان رہے ہم نے بھی پرسش نہیں کی
اپنی شرطوں پہ جیے اس سے گزارش نہیں کی
اس نے اک روز کیا ہم سے اچانک وہ سوال
دھڑکنیں تھم سی گئیں وقت نے جنبش نہیں کی
کس لئے بجھنے لگے اول شب سارے چراغ
آندھیوں نے بھی اگرچہ کوئی سازش نہیں کی
اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی
ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی
اس نے ظاہر نہ کیا اپنا پشیماں ہونا
ہم بھی انجان رہے ہم نے بھی پرسش نہیں کی
Laiba Junaid
ستارہ بار بن جائے نظر ایسا نہیں ہوتا ستارہ بار بن جائے نظر ایسا نہیں ہوتا
ہر اک امید بر آئے مگر ایسا نہیں ہوتا
محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے
در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا
سبھی کے ہاتھ میں مثل سفال نم نہیں رہنا
جو مل جائے وہی ہو کوزہ گر ایسا نہیں ہوتا
کہا جلتا ہوا گھر دیکھ کر اہل تماشا نے
دھواں ایسے نہیں اٹھتا شرر ایسا نہیں ہوتا
کسی کی مہرباں دستک نے زندہ کر دیا مجھ کو
میں پتھر ہو گئی ہوتی اگر ایسا نہیں ہوتا
کسی جذبے کی شدت منحصر تکمیل پر بھی تھی
نہ پایا ہو تو کھونے کا بھی ڈر ایسا نہیں ہوتا
ہر اک امید بر آئے مگر ایسا نہیں ہوتا
محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے
در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا
سبھی کے ہاتھ میں مثل سفال نم نہیں رہنا
جو مل جائے وہی ہو کوزہ گر ایسا نہیں ہوتا
کہا جلتا ہوا گھر دیکھ کر اہل تماشا نے
دھواں ایسے نہیں اٹھتا شرر ایسا نہیں ہوتا
کسی کی مہرباں دستک نے زندہ کر دیا مجھ کو
میں پتھر ہو گئی ہوتی اگر ایسا نہیں ہوتا
کسی جذبے کی شدت منحصر تکمیل پر بھی تھی
نہ پایا ہو تو کھونے کا بھی ڈر ایسا نہیں ہوتا
Qaiser
میں نے سوچا ہے رات بھر تم کو میں نے سوچا ہے رات بھر تم کو
کاش ہو جائے یہ خبر تم کو
زندگی میں کبھی کسی کو بھی
میں نے چاہا نہیں مگر تم کو
جانتی ہوں کہ تم نہیں موجود
ڈھونڈھتی ہے مگر نظر تم کو
تم بھی افسوس راہ رو نکلے
میں تو سمجھی تھی ہم سفر تم کو
مجھ میں اب میں نہیں رہی باقی
میں نے چاہا ہے اس قدر تم کو
کاش ہو جائے یہ خبر تم کو
زندگی میں کبھی کسی کو بھی
میں نے چاہا نہیں مگر تم کو
جانتی ہوں کہ تم نہیں موجود
ڈھونڈھتی ہے مگر نظر تم کو
تم بھی افسوس راہ رو نکلے
میں تو سمجھی تھی ہم سفر تم کو
مجھ میں اب میں نہیں رہی باقی
میں نے چاہا ہے اس قدر تم کو
Wahaj
ملا بھی زیست میں کیا رنج رہ گزار سے کم ملا بھی زیست میں کیا رنج رہ گزار سے کم
سو اپنا شوق سفر بھی نہیں غبار سے کم
ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم
ہنسی خوشی کی رفاقت کسی سے کیا چاہیں
یہاں تو ملتا نہیں کوئی غم گسار سے کم
وہ منتظر ہے یقیناً ہوائے سرسر کا
جو حبس ہو نہ سکا باد نوبہار سے کم
بلندیوں کے سفر میں قدم زمیں پہ رہیں
یہ تخت و تاج بھی ہوتے نہیں ہیں دار سے کم
عجیب رنگوں سے مجھ کو سنوار دیتی ہے
کہ وہ نگاہ ستائش نہیں سنگھار سے کم
مری انا ہی سدا درمیاں رہی حائل
وگرنہ کچھ بھی نہیں میرے اختیار سے کم
وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا
مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم
سو اپنا شوق سفر بھی نہیں غبار سے کم
ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر نہ کچھ خمار سے کم
ہنسی خوشی کی رفاقت کسی سے کیا چاہیں
یہاں تو ملتا نہیں کوئی غم گسار سے کم
وہ منتظر ہے یقیناً ہوائے سرسر کا
جو حبس ہو نہ سکا باد نوبہار سے کم
بلندیوں کے سفر میں قدم زمیں پہ رہیں
یہ تخت و تاج بھی ہوتے نہیں ہیں دار سے کم
عجیب رنگوں سے مجھ کو سنوار دیتی ہے
کہ وہ نگاہ ستائش نہیں سنگھار سے کم
مری انا ہی سدا درمیاں رہی حائل
وگرنہ کچھ بھی نہیں میرے اختیار سے کم
وہ جنگ جس میں مقابل رہے ضمیر مرا
مجھے وہ جیت بھی عنبرؔ نہ ہوگی ہار سے کم
Rehan
دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو تم بھی ناں
خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو تم بھی ناں
مانگ رہے ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو تم بھی ناں
مجھے مسلسل دیکھ رہے ہو تم بھی ناں
دے جاتے ہو مجھ کو کتنے رنگ نئے
جیسے پہلی بار ملے ہو تم بھی ناں
ہر منظر میں اب ہم دونوں ہوتے ہیں
مجھ میں ایسے آن بسے ہو تم بھی ناں
عشق نے یوں دونوں کو آمیز کیا
اب تو تم بھی کہہ دیتے ہو تم بھی ناں
خود ہی کہو اب کیسے سنور سکتی ہوں میں
آئینے میں تم ہوتے ہو تم بھی ناں
بن کے ہنسی ہونٹوں پر بھی رہتے ہو
اشکوں میں بھی تم بہتے ہو تم بھی ناں
میری بند آنکھیں تم پڑھ لیتے ہو
مجھ کو اتنا جان چکے ہو تم بھی ناں
مانگ رہے ہو رخصت اور خود ہی
ہاتھ میں ہاتھ لئے بیٹھے ہو تم بھی ناں
Zain
شب تھی بے خواب اک آرزو دیر تک شب تھی بے خواب اک آرزو دیر تک
شہر دل میں پھری کو بہ کو دیر تک
چاندنی سے تصور کا در وا ہوا
تم سے ہوتی رہی گفتگو دیر تک
جاگ اٹھے تھے قربت کے موسم تمام
پھر سجی محفل رنگ و بو دیر تک
دفعتاً اٹھ گئی ہیں نگاہیں مری
آج بیٹھے رہو روبرو دیر تک
تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا
کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک
دل کے سادہ افق پر تمہی سے رہے
رنگ قوس و قزح چار سو دیر تک
رت جگے میں رہا خواب کا وہ سماں
کیفیت تھی وہی ہو بہ ہو دیر تک
شہر دل میں پھری کو بہ کو دیر تک
چاندنی سے تصور کا در وا ہوا
تم سے ہوتی رہی گفتگو دیر تک
جاگ اٹھے تھے قربت کے موسم تمام
پھر سجی محفل رنگ و بو دیر تک
دفعتاً اٹھ گئی ہیں نگاہیں مری
آج بیٹھے رہو روبرو دیر تک
تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا
کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک
دل کے سادہ افق پر تمہی سے رہے
رنگ قوس و قزح چار سو دیر تک
رت جگے میں رہا خواب کا وہ سماں
کیفیت تھی وہی ہو بہ ہو دیر تک
Erma
User Reviews