Akbar Allahabadi Poetry, Ghazals & Shayari
Akbar Allahabadi Poetry allows readers to express their inner feelings with the help of beautiful poetry. Akbar Allahabadi shayari and ghazals is popular among people who love to read good poems. You can read 2 and 4 lines Poetry and download Akbar Allahabadi poetry images can easily share it with your loved ones including your friends and family members. Up till, several books have been written on Akbar Allahabadi Shayari. Urdu Ghazal readers have their own choice or preference and here you can read Akbar Allahabadi poetry in Urdu & English from different categories.
- LATEST POETRY
- اردو
aarju main ne koi ki hi nahi
majhabii bahas main ne ki hi nahi
faalatoo akal mujh mein thii hi nahi
chaahataa thaa bahut sii baton ko
magar afsos ab vo ji hi nahi
juraat-e-arj-e-haal kyaa hoti
najr-e-lutf us ne kii hii nahi
is musiibat men dil se kaa kahata
koi aisi misal thii hii nahi
aap kyaa jaanen kdr-e-'yaa-Allaah'
jab musiibat koii padi hii nahin
shirk choda to sab ne chod diyaa
merii koi sosaaiti hii nahi
poocha ‘akabar’ hai adami kaisa
hans ke bole vo adami hi nahi Ijlal Haidar
Thoree See Joe Pee Lee Hai
Daaka To Nahin Daala,
Choree To Nahin Kee Hai
Us Ma’ay Say Nahin Matlab,
Dil Jis Say Ho Baygaana
Maqsood Hay Oos Ma’ay Se,
Dil Hee Main Jo Khinchtee Hai
Na Tajurba-Kari Se,
Va’iz Kee Ye Batain Hain
Us Rung Ko Kya Jaanay,
Pucho To Kabhee Pee Hai?
Sooraj Main Lagay Dhabba,
Fitrat Kay Karishmay Hain
Butt Hum Ko Kahain Kaafir,
Allah Kee Marzee Hai
Har Zarra Chamakta hai,
Anwar-e-Elaahi Se..
Har Saans ye kehti hai,
Hum Hai to Khudaa Bhi Hai..
suraj mein lage dhabba
fitrat ke karishme hain
but hum ko kahen kafir allah ki marzi hai
talim ka shor aisa tahzib ka ghul itna
barakat jo nahin hoti niyyat ki KHarabi hai
sach kahte hain shaiKH 'akbar' hai taat-e-haq lazim
han tark-e-mai-o-shahid ye un ki buzurgi hai Haider Ali
Aankh Un Se Jo Milti Hai Tu Kya Kya Nahi Hota
Jalwa Naho Maani Ka Tu Surat Ka Asar Kya
Bulbul Gul Tasweer Ka Sheeda Nahi Hota
Allah Bachaye Mar-E Ishq Se Dil Ko
Sunte Hain Ke Ye Aarza Acha Nahi Hota
Tashbeh Tere Chehre Ko Kya Dun Gul-E Tar Se
Hota Hai Shufugta Magar Itna Nahi Hota
Mein Naza Mein Hun Ayen Tu Ehsan Hai Un Ka
Lekin Ye Samajh Lein Ke Tamasha Nahi Hota
Ham Aah Bhi Karte Hai Tu Ho Jate Hain Badnam
Wo Qatal Bhi Karte Hian Tu Charcha Nahi Hota Dua Nasir
Bazar Se Guzra Hun Khredar Nahi Hun
Zinda Hun Magar Zeesat Ki Lizzat Nahi Baqi
Har Chand Ke Hun Hosh Mein Hushyar Nahi Hun
Is Khan-E Hasti Se Guzar Jaon Ga Be Loss
Saya Hun Faqat Naqsh Be Dewaar Nahi Hun
Afsurda Hun Ibrat Se Dawa Ki Nahi Hajat
Gham Ma Muje Ye Zo’af Hai Bemar Nahi Hun
Wo Gul Hun Khazan Ne Jisay Barbad Kya Hai
Uljhon Kisi Daman Se Mein Wo Khar Nahi Hun
Ya Rab Mujhe Mahfooz Rakh Is But Ke Sutam Se
Mein Is Ki Anayat Ka Talabgar Nahi Hun
Go Dawa Taqwa Nahi Dargah Khuda Mein
But Jis Se Hun Khush Aesa Gunahgar Nahi Hun
Afsurdagi-O Zo’af Ki Kuch Had Nahi Akbar
Kafir Ke Muqabil Mein Bhi Den-Dar Nahi Hun Basit
ادھر تو آؤ مرے گلعذار عید کے دن
غضب کا حسن ہے آرائشیں قیامت کی
عیاں ہے قدرت پروردگار عید کے دن
سنبھل سکی نہ طبیعت کسی طرح میری
رہا نہ دل پہ مجھے اختیار عید کے دن
وہ سال بھر سے کدورت بھری جو تھی دل میں
وہ دور ہو گئی بس ایک بار عید کے دن
لگا لیا انہیں سینہ سے جوش الفت میں
غرض کہ آ ہی گیا مجھ کو پیار عید کے دن
کہیں ہے نغمۂ بلبل کہیں ہے خندۂ گل
عیاں ہے جوش شباب بہار عید کے دن
سویاں دودھ شکر میوہ سب مہیا ہے
مگر یہ سب ہے مجھے ناگوار عید کے دن
ملے اگر لب شیریں کا تیرے اک بوسہ
تو لطف ہو مجھے البتہ یار عید کے دن نعمان علی
گو بت ہیں آپ بہر خدا مان لیجئے
دل لے کے کہتے ہیں تری خاطر سے لے لیا
الٹا مجھی پہ رکھتے ہیں احسان لیجئے
غیروں کو اپنے ہاتھ سے ہنس کر کھلا دیا
مجھ سے کبیدہ ہو کے کہا پان لیجئے
مرنا قبول ہے مگر الفت نہیں قبول
دل تو نہ دوں گا آپ کو میں جان لیجئے
حاضر ہوا کروں گا میں اکثر حضور میں
آج اچھی طرح سے مجھے پہچان لیجئے Sami
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے
مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا
بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں
یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا
خدا کی یاد میں محویت دل بادشاہی ہے
مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا Qaiser
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہر چند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں
اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث
سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں
افسردہ ہوں عبرت سے دوا کی نہیں حاجت
غم کا مجھے یہ ضعف ہے بیمار نہیں ہوں
وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں ہوں
یا رب مجھے محفوظ رکھ اس بت کے ستم سے
میں اس کی عنایت کا طلب گار نہیں ہوں
گو دعوی تقوی نہیں درگاہ خدا میں
بت جس سے ہوں خوش ایسا گنہ گار نہیں ہوں
افسردگی و ضعف کی کچھ حد نہیں اکبرؔ
کافر کے مقابل میں بھی دیں دار نہیں ہوں danish
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے
اس مے سے نہیں مطلب دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے
اے شوق وہی مے پی اے ہوش ذرا سو جا
مہمان نظر اس دم ایک برق تجلی ہے
واں دل میں کہ صدمے دو یاں جی میں کہ سب سہہ لو
ان کا بھی عجب دل ہے میرا بھی عجب جی ہے
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
سورج میں لگے دھبا فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے
تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اتنا
برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے
سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازم
ہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے ahtisham
جو یہ کہتے ہوئے جاتے ہو کہ دیکھا دیکھا
طفل دل کو مرے کیا جانے لگی کس کی نظر
میں نے کمبخت کو دو دن بھی نہ اچھا دیکھا
لے گیا تھا طرف گور غریباں دل زار
کیا کہیں تم سے جو کچھ واں کا تماشا دیکھا
وہ جو تھے رونق آبادیٔ گلزار جہاں
سر سے پا تک انہیں خاک رہ صحرا دیکھا
کل تلک محفل عشرت میں جو تھے صدر نشیں
قبر میں آج انہیں بیکس و تنہا دیکھا
بسکہ نیرنگی عالم پہ اسے حیرت تھی
آئینہ خاک سکندر کو سراپا دیکھا
سر جمشید کے کاسے میں بھری تھی حسرت
یاس کو معتکف تربت دارا دیکھا wasif
زمانہ کی دو رنگی کا اسے ہرگز نہ غم ہوتا
یہ پابند مصیبت دل کے ہاتھوں ہم تو رہتے ہیں
نہیں تو چین سے کٹتی نہ دل ہوتا نہ غم ہوتا
انہیں کی ہے وفائی کا یہ ہے آٹھوں پہر صدمہ
وہی ہوتے جو قابو میں تو پھر کاہے کو غم ہوتا
لب و چشم صنم گر دیکھنے پاتے کہیں شاعر
کوئی شیریں سخن ہوتا کوئی جادو رقم ہوتا
بہت اچھا ہوا آئے نہ وہ میری عیادت کو
جو وہ آتے تو غیر آتے جو غیر آتے تو غم ہوتا
اگر قبریں نظر آتیں نہ دارا و سکندر کی
مجھے بھی اشتیاق دولت و جاہ و حشم ہوتا
لئے جاتا ہے جوش شوق ہم کو راہ الفت میں
نہیں تو ضعف سے دشوار چلنا دو قدم ہوتا
نہ رہنے پائے دیواروں میں روزن شکر ہے ورنہ
تمہیں تو دل لگی ہوتی غریبوں پر ستم ہوتا iffat
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا
اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا nida
جو برہمن نے کہا آخر وہ سب کرنا پڑا
صبر کرنا فرقت محبوب میں سمجھے تھے سہل
کھل گیا اپنی سمجھ کا حال جب کرنا پڑا
تجربے نے حب دنیا سے سکھایا احتراز
پہلے کہتے تھے فقط منہ سے اور اب کرنا پڑا
شیخ کی مجلس میں بھی مفلس کی کچھ پرسش نہیں
دین کی خاطر سے دنیا کو طلب کرنا پڑا
کیا کہوں بے خود ہوا میں کس نگاہ مست سے
عقل کو بھی میری ہستی کا ادب کرنا پڑا
اقتضا فطرت کا رکتا ہے کہیں اے ہم نشیں
شیخ صاحب کو بھی آخر کار شب کرنا پڑا
عالم ہستی کو تھا مد نظر کتمان راز
ایک شے کو دوسری شے کا سبب کرنا پڑا
شعر غیروں کے اسے مطلق نہیں آئے پسند
حضرت اکبرؔ کو بالآخر طلب کرنا پڑا
mehwish
گئے فرہاد و مجنوں اب کسی سے دل نہیں ملتا
بھری ہے انجمن لیکن کسی سے دل نہیں ملتا
ہمیں میں آ گیا کچھ نقص یا کامل نہیں ملتا
پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے
اسے کشتی نہیں ملتی اسے ساحل نہیں ملتا
پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے
کبھی قاضی نہیں ملتے کبھی قاتل نہیں ملتا
حریفوں پر خزانے ہیں کھلے یاں ہجر گیسو ہے
وہاں پہ بل ہے اور یاں سانپ کا بھی بل نہیں ملتا
یہ حسن و عشق ہی کا کام ہے شبہ کریں کس پر
مزاج ان کا نہیں ملتا ہمارا دل نہیں ملتا
چھپا ہے سینہ و رخ دل ستاں ہاتھوں سے کروٹ میں
مجھے سوتے میں بھی وہ حسن سے غافل نہیں ملتا
حواس و ہوش گم ہیں بحر عرفان الٰہی میں
یہی دریا ہے جس میں موج کو ساحل نہیں ملتا
کتاب دل مجھے کافی ہے اکبرؔ ؔدرس حکمت کو
میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مل نہیں ملتا
zia
بت کے بندے ملے اللہ کا بندا نہ ملا
بزم یاراں سے پھری باد بہاری مایوس
ایک سر بھی اسے آمادۂ سودا نہ ملا
گل کے خواہاں تو نظر آئے بہت عطر فروش
طالب زمزمۂ بلبل شیدا نہ ملا
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم
رنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملا
ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبرؔ
مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ ملا
muzna
اٹھ بھی جائے گا جہاں سے تو مسیحا ہوگا
وہ تو موسیٰ ہوا جو طالب دیدار ہوا
پھر وہ کیا ہوگا کہ جس نے تمہیں دیکھا ہوگا
قیس کا ذکر مرے شان جنوں کے آگے
اگلے وقتوں کا کوئی بادیہ پیما ہوگا
آرزو ہے مجھے اک شخص سے ملنے کی بہت
نام کیا لوں کوئی اللہ کا بندا ہوگا
لعل لب کا ترے بوسہ تو میں لیتا ہوں مگر
ڈر یہ ہے خون جگر بعد میں پینا ہوگا sharjeel
کہ مجھ کو دیکھ کے بسمل کو بھی سکون ہوا
غریب دل نے بہت آرزوئیں پیدا کیں
مگر نصیب کا لکھا کہ سب کا خون ہوا
وہ اپنے حسن سے واقف میں اپنی عقل سے سیر
انہوں نے ہوش سنبھالا مجھے جنون ہوا
امید چشم مروت کہاں رہی باقی
ذریعہ باتوں کا جب صرف ٹیلیفون ہوا
نگاہ گرم کرسمس میں بھی رہی ہم پر
ہمارے حق میں دسمبر بھی ماہ جون ہوا rehana
کیا دل کشا یہ سین ہے فصل بہار کا
نازاں ہیں جوش حسن پہ گل ہائے دل فریب
جوبن دکھا رہا ہے یہ عالم ابھار کا
ہیں دیدنی بنفشہ و سنبل کے پیچ و تاب
نقشہ کھینچا ہوا ہے خط و زلف یار کا
سبزہ ہے یا یہ آب زمرد کی موج ہے
شبنم ہے بحر یا گہر آبدار کا
مرغان باغ زمزمہ سنجی میں محو ہیں
اور ناچ ہو رہا ہے نسیم بہار کا
پرواز میں ہیں تیتریاں شاد و چست و مست
زیب بدن کیے ہوئے خلعت بہار کا
موج ہوا و زمزمۂ عندلیب مست
اک ساز دلنواز ہے مضراب و تار کا
ابر تنک نے رونق موسم بڑھائی ہے
غازہ بنا ہے روئے عروس بہار کا
افسوس اس سماں میں بھی اکبرؔ اداس ہے
سوہان روح ہجر ہے اک گل عذار کا sharjeel
اب خشک مزاج آنکھیں بھی ہوئیں دل نے بھی مچلنا چھوڑ دیا
ناوک فگنی سے ظالم کی جنگل میں ہے اک سناٹا سا
مرغان خوش الحاں ہو گئے چپ آہو نے اچھلنا چھوڑ دیا
کیوں کبر و غرور اس دور پہ ہے کیوں دوست فلک کو سمجھا ہے
گردش سے یہ اپنی باز آیا یا رنگ بدلنا چھوڑ دیا
بدلی وہ ہوا گزرا وہ سماں وہ راہ نہیں وہ لوگ نہیں
تفریح کہاں اور سیر کجا گھر سے بھی نکلنا چھوڑ دیا
وہ سوز و گداز اس محفل میں باقی نہ رہا اندھیر ہوا
پروانوں نے جلنا چھوڑ دیا شمعوں نے پگھلنا چھوڑ دیا
ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں ہر موڑ پہ اک لیسنس طلب
اس پارک میں آخر اے اکبرؔ میں نے تو ٹہلنا چھوڑ دیا
کیا دین کو قوت دیں یہ جواں جب حوصلہ افزا کوئی نہیں
کیا ہوش سنبھالیں یہ لڑکے خود اس نے سنبھلنا چھوڑ دیا
اقبال مساعد جب نہ رہا رکھے یہ قدم جس منزل میں
اشجار سے سایہ دور ہوا چشموں نے ابلنا چھوڑ دیا
اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ میں چلنا چھوڑ دیا
جب سر میں ہوائے طاعت تھی سرسبز شجر امید کا تھا
جب صرصر عصیاں چلنے لگی اس پیڑ نے پھلنا چھوڑ دیا
اس حور لقا کو گھر لائے ہو تم کو مبارک اے اکبرؔ
لیکن یہ قیامت کی تم نے گھر سے جو نکلنا چھوڑ دیا Waheed
Akbar Allahabadi Poetry in Urdu
Akbar Allahabadi Poetry – In the fragrant and colorful world of poetry and poets, where raw expression of emotions is the sole source of survival; the majestic poet Akbar Allahabadi drew mostly satire in his compositions and gave himself an impression of a gypsy poet.
aah jo dil se nikali jayegi
kya samajhte ho ki khali jayegi
His sublime and natural take on words while defining fragile subjects remained unmatched. The title "Lisan-ul-Asr" was bestowed upon him for his literary excellence. Akbar Allahabadi’s Poetry composition was based on the Subjects of Love, philosophy, religion, social reform, satire, British rule and emotions. Says he in one of his delicately striking sher;
aql men jo ghir gaya la-intiha kyunkar hua
jo sama mai aa gaya phir wo ḳhuda kyun kar hua
He, being an Indian Muslim and Urdu poet could barely perceive India as a land but witnessed the country as a pliant and subservient vassal of the British Raj and as a "warehouse of Europe". His compositions of Shayari reflect his mind. Also showing criticism for Syed Ahmed Khan’s take on pro-western beliefs and religious views, he said;
Hazir huya main Khidmat e Sayyad mein Ek Raat
Afsos hai ke ho na saki kuch ziyada baat
Bole ke tum pe Deen ki Islaah Farz hai !
Main chal diya ye kah ke Aadaab Arz hai.
Showing a comedic rivalry in literature, Akbar Allahabadi later came to realize Syed’s motive and its vitality, displaying respect and support. Here it depicts how time reshaped Akbar’s perception. His ghazals continued to gain fame far and wide and beyond India. Akbar Allahabadi Ghazals are considered gems of Urdu. He published four collections of poem in his lifespan. By time he was transformed into a contemporary of the great social reformer and scholar Sir Syed Ahmad khan. He passed away in 1921 in Allahabad.
Read the latest and best collection of Akbar Allahabadi Shayari in Urdu and English available on HamariWeb.com. HamariWeb brings you forth the best collection of Akbar Allahabadi’s Qalam to retrieve memories from some finest collection of Akbar Allahabadi’s Nazams, Shayari & Ghazal. You can access the latest collection of Akbar Allahabadi’s Poetry, Shayari and Ghazals from HamariWeb.com online. Read, submit and share your favorite Akbar Allahabadi’s verses and shayari online to your friends, family and loved ones.