وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
Poet: شفیق خلش By: saeed afghani, Washington, DC وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے
یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے
نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے
گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس سے میسّراب، رہیں لمحے اُس کے وصال کے
یُوں خِرام جیسے نسیم سے کوئی شاخِ گُل ہو ہِلا ہُوا
تِرے ناز و ناپ کا ہر قدم، رہے دِل کو میرے اُچھال کے
جی ہمارا چاہے کہ ہم کبھی کہیں اُن سے اپنی غزل کوئی
جو حجاب ہم سے ضرور تو، سُنیں بیچ پردہ ہی ڈال کے
کوئی خوش خیالی کی حد بھی ہے، کہ دِکھائے منظراُسی طرح
جو تھے پیش پہلے نظر کے سب، بُجھے منظروں کو اُجال کے
ہے عجیب جلوۂ زیست اب، نہ یقین ہو، نہ گُماں ہے سب
تھے ہُنر سے پُر یہی اِس نگر اُٹھے ہاتھ سارے سوال کے
نہیں فکرِ فردا کوئی مجھے، نہ ہی باز پُرس کا خوف ہے
کئے حق ادا سب بصدقِ دل جو تھے واجب اہل وعیال کے
تِرے حق میں لب پہ خلش کے اب رہے روز و شب یہ دُعا، خُدا
تجھے استقامتِ خُوب دے، سبھی وَسوَسوں سے نِکال کے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






