وہ بات اب کہہ بھی دو جاناں مجھے جسکی ضرورت ہے
وگرنہ ریت پہ لکھ دو “ مجھے تم سے محبت ہے “
میری آنکھوں کی جنبش سے جو لرزیں روپ کے ساغر
تو پھر دھیرے سے کہہ دینا “ یہ دیوانے کی وحشت ہے“
ابھی تو میں نے پلکوں کو جھکایا تھا تیرے در پر
شہر میں شور مچ اٹھا “ بغاوت ہے بغاوت ہے
تیری زلفوں تلے ہی بندگی کے بھید کھلتے ہیں
تیری مٹھی میں ہی شاید میرے خوابوں کی جنت ہے
جنہیں میں نے گرایا پھول کی بے رنگ ٹہنی پر
ذرا معلوم تو کرنا جو ان اشکوں کی قیمت ہے
کہاں لفظوں میں اتنی تاب کہ تم کو بیاں کر دوں
عشق کی انتہا اقبال کہہ اٹھا تھا “ حیرت ہے “
مدران خلا اب ڈھونڈتے ہیں اپنے کروں کو
تمہاری راہگزر بھی چاند تاروں کی شرارت ہے
نظر کو زندگی بخشو یا سانسوں کو فنا کر دو
سبھی منظور ہے مجھکو تمہیں ہر اک اجازت ہے