مجھ کو زیرِ عتاب ہونا تھا
راستوں کو سراب ہونا تھا
دشتِ دنیا تھی سامنے ورنہ
ہر نظر نے کتاب ہونا تھا
تیرے رستے کی مضطرب ہے ہوا
اس کو الفت کا باب ہونا تھا
کوئی دیکھا نہ پیار کا کالج
عشق ورنہ نصاب ہونا تھا
اور رکنی تھیں وقت کی سانسیں
چاہتوں کو عزاب ہونا تھا
میری آنکھوں کو گر وہ پڑھ لیتا
چہرہ کھل کر گلاب ہونا تھا
اپنی آنکھوں سے دیکھتی نہ کبھی
پیار وشمہ جو خواب ہونا تھا