"رشتوں کا بازار "
Poet: مونا شہزاد By: Mona Shehzad, Calgaryیہ ہے رشتوں کا بازار
یہاں ہر اک ہے خریدار
ہر شخص خود تو ہے عزت کا طلبگار
پر زات اپنی میں ہےنفرت سے مالامال
بولی لگتی ہے روز یہاں
عزت،محبت، اعتبار ،اعتماد
سب کے ہیں بہت ہی سستے دام
میں کهڑی حیران
دیکھے ہوں یہ اندها بیوپار
لب سی رکھے ہیں میں نے
کہ سچ کا نہیں ہے کوئی خریدار
پاوں چهلنی؛روح فگار
سر پر ہے ناکردہ گناہوں کا انبار
چلی جارہی ہوں اس خیال میں
کبھی تو صبح نوید ہوگی
کبھی تو مان،محبت، اعتبار کا سورج طلوع ہوگ
چمکا دے گا رشتوں کا بازار
اس دن نہ ہوگا کوئی خالی ہاتھ
یہ ہے رشتوں کا بازار
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






