ہر نفس کچھ حادثے ہوتے رہے
نقش یادوں کے لہو روتے رہے
ہنستے ہنستے آگئے آنکھوں میں اشک
دیر تک ہم بے سبب روتے رہے
ہر نظر اک زخم تازہ دے گئے
آئینے پر چھائیاں کھوتے رہے
پھول برساتے رہے اوروں پہ ہم
خار اپنی راہ میں بوتے رہے
ہم کہ اک موہوم سی امید پر
مثلِ شبنم داغ دل دھوتے رہے
عمر وشمہ ہوگئی آخر تمام
ہم کبھی جاگے کبھی سوتے رہے