یہ انکساری دل کی تریاق ہے انا کی
Poet: Prof. Niamat Ali Murtazai By: Prof. Niamat Ali Murtazai, Kasurیہ انکساری دل کی تریاق ہے انا کی
ہر بار ہار دل کی اک جیت ہے وفا کی
گو بجلیاں بھری ہیں اپنی سرشت میں بھی
پر خامشی ہماری تقریر ہے بلا کی
فانوس میں سفل کے نورِ ازل ودیعت
تیرہ شبی ہے پھر بھی چاروں طرف قبا کی
لہروں میں ہے تلاطم،قلزم بھی ہے پریشاں
منت پذیر دونوں ناؤ بھی ، نا خدا بھی
سرخی سحر، شفق کی اتری ہے ہر نظر میں
قاتل نگاہی پھیلی نگری میں انبیاءؑ کی
اس پالکی بدن میں سیرِ چمن کو آئی
بانو بہشت کی میں خواہش یہ کس طرح کی
رشتے لباس جیسے ، محتاج موسموں کے
یہ دوستی، محبت سب رنگتیں عبا کی
بوتل شراب کی ہو جب ہاتھ میں کسی کے
ڈولے ایمان جیسے پائل ہو سبک پا کی
ہر پل ہے ساتھ دل کے خود دل سے دل کی دوری
مانگا وصل کسی کا، تاثیر اس دعا کی
ہم نے وفا کی جھولی بھر دی ہے گوہروں سے
آنکھیں ہماری کانیں، عادت بھی ہے سخا کی
گم گشتہء جہاں ہیں، نذرِ نظر رہے ہیں
انداز آسماں کا، تقدیر کی سفاکی
اس کوچہء صنم میں سب نے فَنا ہی پائی
دو داد مرتضائیؔ الفت کی اس ادا کی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






