یوں تو قدم قدم لٹتے ہیں لوگ بازار میں
Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Huston یوں تو قدم قدم لٹتے ہیں لوگ بازار میں
ہیں کچھ جو ہر دم لٹتے ہیں اپنے ہی کوچہ یار میں
ہیں ہوتے فروخت غنچہ گلفام بھی جا بجا بازار میں
یوں دیوانے غنچہ خام کے بھی دیتے دام اشغال میں
ہے یہ اعجوبہ ہی بےنام بکتے لوگ سرعام بازار میں
یوں جی رہے سب ہی اس بے حسی کے عالم حصار میں
اجلے لوگ اب نظر آتے نہیں جا بسے وہ دیار غیر میں
اٹھے تن من سے دھواں یا لگے آ گ دیار اشجار میں
میلے تن من پے چڑھے صوفیانہ خول کے خول یوں
ملتی نہیں سانس گو ملتی ہر شہ جنگل ود نگل کے بازار میں
More General Poetry






