یاد کی چاپ
Poet: مرزا عبدالعلیم بیگ By: مرزا عبدالعلیم بیگ, Pakistanکبھی اگر
تنہائی تمہیں اپنی آغوش میں لے
اور خاموشی
تمہارے کان میں کچھ سرگوشیاں کرے
تو
مجھے یاد کر لینا
اگر کسی پرانی کتاب کے صفحے
اچانک کھل جائیں
اور کسی بھولی بسری ہنسی کی خوشبو
تمہیں چونکا دے
تو سمجھنا
کہ کچھ لمحے اب بھی تمہیں ڈھونڈتے ہیں
بارش کی بوندیں
جب کھڑکی پر دستک دیں
اور ہوا میں
کسی جانے پہچانے قدموں کی چاپ سنائی دے
تو جان لینا
کہ یادیں بھی چلتی ہیں
دھیرے دھیرے، بھیگی بھیگی
اگر تمہاری نگاہ
کسی تصویر پر رک جائے
اور تمہارے دل کی دھڑکن
ایک پل کو گم ہو جائے
تو سوچنا
کہ کچھ چہرے
کبھی ماضی نہیں ہوتے
اگر تمہیں
جلتے چراغ کی لو میں
کسی کی پلکیں لرزتی محسوس ہوں
یا اندھیرے میں
کوئی خاموش آنکھ تمہیں تکتی دکھائی دے
تو کہنا
کہ یادیں، محض سایے نہیں ہوتیں
کبھی کبھی وہ سانس بھی لیتی ہیں
اور اگر
وہی موسم
وہی رستہ
وہی نام
کسی خواب کی طرح تمہارے دل کو چُھو لے
تو بس
میرے نام کو
خاموشی سے، آہستہ سے
پکار لینا
میں شاید نہ سن سکوں
مگر میری روح
ضرور مسکرائے گی
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






