ہے بہتر اب بھلا دیں اپنی قربت کے حسیں لمحے
Poet: Dr.Zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore,Psakistanتری بانہوں کی گرمی تھی
تری زلفوں کی ٹھنڈک تھی
میں تیرے پاس تھاتو
رنج سارے دور تھے مجھ سے
میں سمجھا تھا کہ یہ دنیا
ہی جنت ہے مری محبوب !
فضا میں ہر طرف دلکش
حسیبں نغموں کی بارش تھی
کھلے تھے پھول میری روح میں
سانسوں میں خوشبو تھی
تری قربت کے لمحے
زندگی میں میری کیا آئے
کہ میں ماضی کے سارے
درد اک پل میں بھلا بیٹھا
ترے ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھا
تو لگ رہا تھا یوں
مری بے چینیوں نے چین جیسے
پا لیا تجھ سے
حلاوت نے ترے ہونٹوں کی
سارا زہر پی ڈالا
بھرا تھا جو مری نس نس میں،
میری روح میں ، تن میں
بجھا کے پیاس میری تو نے
الفت سے مجھے دیکھا
تری نظروں میں شوخی تھی،
محبت تھی،
شرارت تھی
تری بے باکیوں میں ایک
طوفاں تھا ،
قیامت تھی
وہ ٹھنڈی رات وہ
سانسوں کی گرمی
یاد ہے مجھ کو
کہ جب میں نے یہ سوچا تھا
میں تجھ سے عمر بھر جاناں
کروں گا ایسی الفت
جو کسی نے کبھی کی ہو
شریک زندگی کر کے تجھے
چاہوں گا میں ہر دم
نچھاور تیرے قدموں پہ کروں گا
پھول ہر صبح
تری زلفوں کو چوموں گا
میں راتوں کی سیاہی میں
تجھے شہزادیوں کی طرح
رکھوں گا مری محبوب !
مگر مّعصومیت تھی میری
میں یہ سمجھا نہ تھا اس پل
کہ شہزادہ نہیں ہوں میں
بس اک مفلس و بے گھر ہوں
میں تجھ کو ریشم و اطلس
کے جو ڑے دے نہ پاؤں گا
کوئی کوٹھی ، کوئی گاڑی
نہیں میرے نصیبوں میں
محبت مفلسی میں توڑ دے گی دم
یہ نہ سوچا
حسین خوابوں کی تعبیریں
بھیانک بھی تو ہوتی ہیں
حقیقت کہہ رہی ہے کیا
حقیقت کو ذرا سن لیں
ہے بہتر اب بھلا دیں اپنی
قربت کے حسیں لمحے
فلاکت کھا نہ جائے تیرے میرے
پیار کو جاناں !
فلاکت میں محبت کی
ہلاکت تو یقینی ہے
اسے تو بے وفائی نہ سمجھنا
ہے یہ مجبوری
ذرا سوچو ، ذرا سوچو
حقیقت کو ذرا سوچو
فلاکت میں محبت کو
تماشا نہ بنائیں ہم
چلو کوشش کریں کہ
ایک دوجے کو
بھلا دیں ہم
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






