ہر سمت انتشار ہے ہر سمت بے دلی
Poet: Wamiq Kakakhel By: Wamiq Kakakhel, Rawalpindiہر سمت انتشار ہے ہر سمت بے دلی
بستی یہ ایسی ہو گی نہ سوچا تھا یوں کبھی
خدشوں میں لپٹے ذہن تو فکروں میں لپٹے چہرے
ہر سینہ فگار میں اک آگ ہے بھری
ہر سو دکھائی دیتے ہیں غارت گری کے منظر
بجھنے لگی ہے آنکھ یہ حیرت سے دیکھتی
پھٹتے ہیں کان خامشی کی گونج سے یہاں
سہما ہے بے زبان ہے ہر ایک آدمی
ہر سمت آگ بھوک کی دہکی ہوئی یہاں
خلقت شہر کی ساری جہنم میں جل رہی
دریا تمام نہریں سبھی خشک ہو گئیں
چشمے اگلتی مٹی ہی بے فیض ہو گئی
وامق دعا کا دور ہے سجدوں کی ساعتیں
شاید ہی سمجھے قوم یہ مرتی ہوئی میری
More Life Poetry






