کوئی پوچھے تو سہی
Poet: Khalid Kasi By: Khalid Kasi, Quettaنجانے وہ کس راہ سے گزرا، ہمیں تو کوئی بھی نشاں نہ ملا
عمر ہوئی ہے گھر سے نکلے، پھر کبھی اپنا مکاں نہ ملا
پاؤں چھالوں سے اٹ تو گئے تھک کے کہیں پھر بیٹھے نہیں
بس چلتے رہنا یہ حکم ملا تھا، رکنے کا کہیں فرماں نہ ملا
میں غموں سے،غم مجھ سے ملے، پھر مل کے خوش ہوئے دونوں
ایسی دولت پائی ہے میں نے، کھونے کا جسے کوئی امکاں نہ ملا
کوئی پوچھے تو سہی، کیا حالات رہے، کس کرب سے گزر کے آئے ہیں
آندھیاں تو ہزار ملیں ، صد شکر کہ کوئی بھی طافاں نہ ملا
سمجھا رہے ہیں لوگ مجھے، بکھر چکے ہو سمیٹ لو خود کو
کہاں میں کھویا، خبر نہیں ہے، مجھے تو اپنا کوئی نشاں نہ ملا
رینگتے رہتے تو کیا برا تھا، برا ہوا جو اڑ گئے تھے
عجب شوق تلاش تھی یہ، آسماں سے گزر کے آسماں نہ ملا
میں تنہائی کو ڈھونڈنے نکلا، قیامت کا سا شور ہر جا
شہر تو خیر شہر ہےکاسی ، جنگل بھی کوئی ویراں نہ ملا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






