کاش ندیم آجائے دوبارہ چھوٹی سی وہ شام
Poet: NADEEM MURAD By: NADEEM MURAD, Karachiہجر میں دن تو خیر گزارا چھوٹی سی وہ شام
وقت تھا جیسے صدیاں ہارا چھوٹی سی وہ شام
چھوٹا سا وہ دن تھا ہمارا چھوٹی سی وہ شام
حاصل عمر اور دل کا سہارا چھوٹی سی وہ شام
عمر کی ساری خوشیاں اور غم بھیگی راتیں روشن دن
دل کی دعا لوٹ آئے خدارا چھوٹی سی وہ شام
ہجر و فراق اور وصل کے قصے فرصت کے تھے کام
یادوں کے آکاش کا تارا چھوٹی سی وہ شام
دھوپ اور دھوپ کی تیز تپش نے کالے کر دئیے روپ
یادوں میں جینے کا سہارا چھوٹی سی وہ شام
ساری اپنی قیمتی یادیں بھول گئے ہم یار
بھولوں کیسے ہجر کا مارا چھوٹی سی وہ شام
جیسے آگ کا کوئی شرار اور جیسے صبح کا تارا
یادوں میں چمکے جو ستارا چھوٹی سی وہ شام
کیسے بھولوں، بھول کے ساری دنیا کو جو پائی
ہم تھے اور تھا وہ چوبارہ چھوٹی سی وہ شام
کاٹے نہیں جو کٹتے دن اور رات وہ آئیں روز
کاش ندیم آجائے دوبارا چھوٹی سی وہ شام
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






