پیاسی دھرتی چیخ رہی ہے پانی ہو
درد کی جو بھی لہر اٹھے طوفانی ہو
نیلے پیلے رنگ ہوں بکھرے چہرے پر
اپنے نمو کی یارب کوئی نشانی ہو
اس کی ترقی یارو وہ کیا سمجھئے گا
جس کی اپنی بولی بھی مکا نی ہو
تن پر ہو ملبوس وہ پھر بھی عریاں میں
جن لوگوں کی آنکھوں میں یہ عیانی ہو
میں نے کب چاہا تجھ سے اس کے بنا
میرے مالک عمر میری جوانی ہو
جوئے شیر کا لانا آج بھی ممکن ہے
بولو وشمہ جی تم شیرنی ثانی ہو