میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
Poet: MOHSIN NAQVI By: WASHMA KHAN WASHMA, MOSCOWمیں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سے
نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو!
مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سے
جان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے
وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟
شہر میں پرورشِرسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟
آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سے
جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے
لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے
جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے
جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسؔن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






