میں ڈھونڈ تو رہا ہوں مگر مل نہیں رہا

Poet: فیض محمد شیخ By: نعمان علی, Islamabad

میں ڈھونڈ تو رہا ہوں مگر مل نہیں رہا
جیسے میرے سینے میں اب دل نہیں رہا

جانے کہاں سے خون کے چشمے ابل پڑے
یہ گھر مزید رہنے کے قابل نہیں رہے

منطق، دلیل، فلسفے بے کار جائیں گے
اب ذہن تیری باتوں پر مائل نہیں رہا

کیا سوچ کر مسیحا بنایا تھا تجھے
تجھ سے تو ایک زخم ہی اب سِل نہیں رہا

ہتھیار سارے ڈال دیے جنگِ زیست میں
اب میں خود اپنے مدِ مقابل نہیں رہا

Rate it:
Views: 534
25 Jul, 2022