میں چاہتا کیا ہوں
Poet: منصور احمد ثمر By: Mansoor Ahmad Samar, Islamabadدل کی بات کرنا چاہتا ہوں
نجانے کہنا میں کیا چاہتا ہوں
کبھی رہتا ہے یونہی دل پریشاں
نجانے سوچنا کیا چاہتا ہوں
رات بھر کھلی آنکھوں سے اکژ
نجانے خواب میں کیا چاہتا ہوں
ہے کمی کوئی سب ہوتے ہوئے بھی
نجانے پانا میں کیا چاہتا ہوں
اب کسی کی گفتگو اچھی نہیں لگتی
نجانے سننا کس کو چاہتا ہوں
حالات پرونے کیلئے الفاظ نہیں ہیں
اس لئے خاموش رہنا چاہتا ہوں
دن گزر جاتا ہے کب کہاں میرا
کبھی سوچوں میں اکژ چاہتا ہوں
کیا جو غور زندگی پہ میں نے اپنی
کہ آخر کرنا میں کیا چاہتا ہوں
بہت سوچا اور کیا کچھ وقت بھی ضائع
مشیرِنفس تب بولاکہ کہ میں چاہتا کیا ہوں
بنےماں باپ کی آنکھوں کی جو ٹھنڈک
ایسا میں فرزند بننا چاہتا ہوں
بنے تسکین کا باعث جو ہر کسی کیلئے
ایسا میں انسان بننا چاہتا ہوں
اجالا بھر دے جو لوگوں کے دل میں
ایسا میں خورشید بنناچاہتا ہوں
جو ہو ہر فصل کے لئے امید کا باعث
ایسی میں برسات بننا چاہتا ہوں
کرے روشن جو ہر رات کی محفل
قمر ایسا میں بننا چاہتا ہوں
جو مرہمِ عیسٰی ہو ہر زخم کے لئے
ایسا میں تریاق بننا چاہتا ہوں
لٹا دے جان جو اپنے وطن کے لئے
سپاہی ایسا میں گمنام بننا چاہتا ہوں
خدمتِ خلق کرکے جو بے لوث ملتا ہے
میں اس احساس کو محسوس کو کرنا چاہتا ہوں
ثمرؔ ہو جس کا شیریں میٹھے پانی کے بغیر
شجر ایسا میں سایہ دار بننا چاہتا ہوں
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






